P-A-C Model in Marriage
پس منظر:
ایک میاں بیوی اپنی دسویں سالگرہ پہ candle-lit dinner کر رہے تھے۔بیگم اپنے diamond set کے تحفے کو لے کر بہت خوش تھیں۔"مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں چاند پہ ہوں۔" اس نے چہرہ چھپاتے ہوئے قہقہہ لگایا۔"اس میں مزاحیہ کیا ہے؟" شوہر نے کہا۔"مسز نواز، ہائے بیچاری خوب جلے گی۔"اس نے کہا۔ یوں اس کی خوشی سنجیدگی اختیار کرنے لگی، اور دونوں میاں بیوی دکھلاوے کی مذمت پر بحث کرنے لگے۔ کھانے کے دوران جب عورت نے اپنے میاں کو سگریٹ نوشی سے روکا تو میاں نے ہنستے ہوئے سوچا، "کیا یہ کبھی میری ماں کی طرح نہیں بولنے اور دکھنے لگ جاتی؟" میری بیگم کیسے اور کیوں ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں چلے گئی؟کس چیز نے اس کو trigger کیا ؟
Eric Berne جو کہ Transactional Analysis کے علمبردار ہیں، انہوں نے تحقیق کرتے ہوئےکہا کہ ہر شخص میں ایک وقت میں تین افراد موجود ہوتے ہیں۔اس نے تین افراد یا کیفیات کو Parent, Adult اور Child کی اصطلاح دی۔ایک کیفیت سے دوسری کیفیت ہماری بول چال میں نظر آتی ہے ۔کئی بار کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ تین کیفیات ہر انسان میں پائی جاتی ہیں۔یہ ایسے ہے جیسے ہر انسان میں ایک تین سال کا بچہ موجود ہے جیسا کہ وہ خود بچپن میں تھا ، اسی انسان میں اس کے ماں باپ بھی موجود ہیں۔ بچپن کی سب اندرونی اور بیرونی کیفیات اور تجربات کی recordings اس کے اندر موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم وہ ہیں جو اس کے بچپن کے ابتدائی پانچ سال ہیں۔ تیسری کیفیت جو کہ باقی دونوں سے مختلف ہے، وہ Adult ہےجو ہم سب میں ایک "حضرت دانشمند " پائے جاتے ہیں۔یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ تین افراد سے زیادہ ہم سب کی سائیکالوجیکل حقیقت ہے۔ ہم سب میں ہر شخص ان تین کیفیات میں سے ایک کیفیت میں لازمی ہوتا ہے۔
اگر آپ اپنی شریک حیات کو روز رات کا کھانا 9 بجے تیار کرنے کا کہ رہے ہیں تو آپ Parent والی کیفیت میں ہیں۔دوسری طرف اگر آپ خواتین کے کام کرنے اور ان کے مسائل پر بحث کر رہے ہیں تو آپ Adult والی کیفیت میں ہیں۔اگر آپ دوست یاروں کے ساتھ پارٹی کر رہے ہیں اور مزاحیہ وقت گزار رہے ہیں تو آپ Child والی کیفیت میں ہیں۔ یاد رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ ہر کیفیت اندر موجود ریکارڈشدہ حالات و واقعات کی پیداوار ہے، جس میں ماضی کے اصل لوگ، اصل وقت، اصل جگہیں، اصل فیصلے اور اصل جذبات موجود ہیں۔
شادی تمام رشتوں میں سب سے پیچیدہ تعلق ہے۔کبھی کبھی ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں شدید جذبات کا اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ہماری سمجھ شاید اس کو سمجھنے سے قاصر ہو لیکن اوسطا شادی کا تعلق ایک Child (بچہ) جوڑتا ہے، جو کہ محبت کو کرنے کے معنیٰ میں نہیں بلکہ احساس کے معنیٰ میں سمجھتا ہے۔جو خوشیوں کو خریدنے کے معنیٰ میں نہیں بلکہ ایسی چیز جو کسی کودے کر حاصل کی جائے خوشی سمجھتا ہے۔ اب جبکہ ہم بات چیت کی ایک نئی لغت سمجھ چکے ہیں، ہم اسے لوگوں کے درمیان بات چیت اور معاملات سمجھنے میں استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ ایک فرد کی طرف سے کسی 'فعل' یا 'حرکت 'اور دوسرے فرد کی طرف سے 'جواب' پر منحصر ہے۔ مقصود یہ کہ اس لمحے میں انسان میں کون سا فرد کام کر رہا ہے۔ Parent, Adult یا Child ۔ ان مختلف کیفیات کی کچھ علامات ہیں۔
Adult کی علامات
جسمانی: بات سنتے وقت مسلسل حرکت، Adult کا چہرہ عموما سیدھا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی جذبات کا اظہار بھی۔
زبانی: Adult کی بنیادی لغت میں عموما کیوں ، کیا، کہاں، کون اور کیسے کے الفاظ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ مزید جملے جیسے، کتنا، کس طرح، کس کے مقابلے میں، سچ، جھوٹ، شاید، ممکن، نا معلوم، مقصد، میرےخیال سے، میں دیکھتا ہوں، یہ میرا مشورہ ہے، وغیرہ
Child کی علامات
جسمانی: آنسو، ہونٹوں کی ہلچل، غصہ، کندھے اچکانا، اونچی آواز، چلاّنا، آنکھوں کا گھومنا، چھیڑنا، خوشی، ہنسی، ناخن چبانا، کھلکھلانا، انگوٹھا ناک پہ رکھنا۔
زبانی: اے کاش، میں چاہتی یا چاہتا ہوں، مجھے نہیں پتہ، مجھے اس سے کیا غرض، جب میں بڑی یا بڑا ہوں گا، جب میں بہت بڑی یا بڑا ہو جاؤں گا، جب میں بہت اچھی یا اچھا ہو جاؤں گا۔
ان علامات اور اشاروں کو پڑھ کر آپ اپنے ذہن میں لوگوں کے رویوں کو سمجھ پا رہے ہوں گے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ (یہ جملہ بذات خود parent کی علامتوں میں سے ہے) آپ اور باقی لوگ ان میں سے اکثر کا اظہار ہمہ وقت کرتے ہیں۔انفرادی طور پر آپ آپ کے لیے یہ جاننا اور جانچنا ضروری ہے کہ آپ کا spouse ان میں سے کون سی علامات اور اشاروں کا اظہار زیادہ کرتا ہے۔ جب آپ ایسا کر لیں گے تو آپ ان کے رویوں کی کیفیت سمجھ جائیں گے۔ روز مرہ کے معاملات میں کبھی کبھی یہ جانچنا مشکل بھی ہو جاتا ہے، لیکن بحرحال آپ مجموعی طور پر مختلف اوقات میں اپنے شریک حیات کے رویوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب ہم ان رویوں کی مثالوں کی طرف آگے بڑھتے ہیں:
STIMULUS Husband (Adult) :
پلیز مکھن دیجیے گا۔
RESPONSE Wife (Adult) :
یہ لیجیے۔
STIMULUS Wife (Parent) :
کیا اس کو نکال دیا گیا ہے؟ ان کی جرات کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ اس طرح کریں۔
RESPONSE Husband (Parent) :
ہاں مائی ڈئیر، یہ بدلتے دور کے تقاضے ہیں۔آج کل اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی کوئی نہیں کرتا۔
ان دونوں صورتوں میں بات چیت کا طریقہ برا نہیں ہے۔ لہٰذا یہ صورتیں قابل ستائش ہیں۔
Managers ہونے کے ناطے اس طرح کی بات چیت محال ہوجاتی ہے۔ اب یہ مثال لیجیے:
STIMULUS Husband (Adult):
آلو پکڑائیے گا ڈئیر۔
RESPONSE Wife (Parent) :
کیا آپ نے مجھے موٹا کہا؟ یا
STIMULUS Wife (Adult) :
ڈئیر میرا hand bag کدھر ہے؟
RESPONSE Husband (Parent) :
آپ نے کہاں رکھا تھا؟
آپ نے غور کیا ہوگا، اس طرح کی بات چیت قابل ستائش نہیں معلوم ہو رہی۔ انفرادی طور پر یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کون سی صورت میں کون سا رویہ نظر آتا ہے:-
صورت: |
رویہ: |
Parent : |
با اقتدار، خود مختاری، غصہ |
Adult : |
ذہانت، مقصد، بقدر ضرورت، خود اعتمادی |
Child : |
تفریح، شرمیلا پن، سستی، ناراضگی، ملامت |
نتیجہ:
P-A-C ماڈل اور TA ذاتی تبدیلی کا نام ہے۔آپ اپنے شریک حیات کو یہ نہیں کہ سکتے کہ میں Adult کی کیفیت میں ہوں، مجھے نہ چھیڑو، کیونکہ میرا مذاق کرنے کودل نہیں کر رہا۔اس کی بجائے آپ کو ان کی کیفیت کو جانچنا ہے اور ان کے حساب سے اپنا رویہ رکھنا ہے۔
شادی ، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ایک پیچیدہ رشتے کا نام ہے۔ اس سے کہیں زیادہ یہ دلچسپ بھی ہے۔ یہ بہت مقدس اور پائیدار بھی ہو سکتا ہےاگر دونوں جانب سے ایک دوسرے کے رویے اور کیفیت کو سمجھنے کی کوشش اور لگن ہو۔
Description automatically generated">
بہت سے لوگ ایک ناخوش کیڑے کی طرح ساتھ چل تو پڑتے ہیں لیکن یہ جانے بغیر کہ کون سا قدم پہلے رکھنا ہےاور کون سا نہیں۔پھر جب مشکلات سامنے آتی ہیں اور عمومی طرز سے زندگی چلنا دشوار ہو جاتا ہے ، ہم آگے بڑھنا بھی چاہتے ہیں تب ہمارے پا س اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ ہم اپنے باہمی تعلقات کا ایک بار پھر جائزہ لیں۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ باقی معاملات کی طرح اس معاملے میں سوچنے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہے، خاص کر ان لوگوں کے لیے جن کا سوشل سائنس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ البتہ اس Johari Window کے چار حصوں کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلا چوتھائی: آزادئی فعل کی جگہ، اس کا تعلق ان افعال اور جذبات سے ہے، جن کو آپ اور لوگ دونوں جانتے ہیں۔
دوسرا چاتھائی: بے بصیرت۔وہ جگہ جس کو ہم تو پہچاننے سے عاری ہیں لیکن لوگ اس کو دیکھتے اور جانتے ہیں۔
تیسرا چوتھائی: پوشیدہ جگہ۔ جس کو ہم تو جانتے ہیں، لیکن لوگوں کو نہیں دکھانا چاہتے۔
چوتھا چوتھائی: انجان جگہ۔جس کو نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہی لوگ۔لیکن ہم اس کا وجود اس لیے فرضی رکھ رہے ہیں کیونکہ یہ جب سامنے آتی ہے تب انسان کواس چیز کا احساس ہوتا ہےکہ یہ انجانے میں ایک لمبے عرصے سے میرے باہمی تعلقات پر حاوی تھی۔
ایک چوتھائی اور تبدیلی کا مرکز
نئے گروپ میں پہلا چوتھائی بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔اس میں کچھ زیادہ آزادی اور رشتہ داری نہیں ہے۔جیسے جیسے گروپ بڑا اور پختہ ہوتا ہے، ویسے ہی پہلا چوتھائی اپنا حجم بڑھا لیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم مزید آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کو ویسا ہی سمجھ رہے ہیں جیسا کہ وہ واقعی میں ہیں۔ جیسے جیسے پہلا چوتھائی بڑا ہوتا ہےتیسرا چوتھائی سکڑنے لگتا ہے۔اور ہمیں اپنے احساسات اور علم کو زیادہ چھپانے کی اہمیت نہیں معلوم ہوتی۔وجہ یہ ہے کہ، ایسا ماحول جہاں باہمی اعتماد ہووہاں اپنے احساسات اور جذبات کو چھپانے کی نوبت محسوس نہیں ہوتی۔ دوسرے چوتھائی کو اپنا حجم بڑھانے میں وقت لگتا ہےکیونکہ انسانی نفسیات کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اس کی اپنے احساسات اور افعال کو چھپانے کی وجہ معقولی ہوتی ہے۔ البتہ چوتھا چاتھائی بہت سے تجربات اور علم کے بعد خود کو بدل لیتا ہے۔ لیکن، ہمارے گمان کے مطابق یہ تبدیلی دوسرے چوتھائی کی بنسبت زیادہ دیر لگاتی ہے۔بلا شبہ ہر اعتبار سے چوتھا چوتھائی اپنے ظاہری حجم سے کہیں بڑا اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔
انفرادی طور پہ Johari Window کا تعلق باہمی رشتوں سے ہے۔پہلے چوتھائی سے مراد وہ افعال اور خواہشات ہیں جو اپنے اور دوسروں کے گروپ ، دونوں کو معلوم ہوتی ہیں۔ دوسرے چوتھائی کی مراد ان افعال سے ہے جن سے آپ کا گروپ تو نا واقف ہے لیکن دوسرے ان افعال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ مثلا مسلک، عصبیت وغیرہ۔ تیسرا چوتھائی، ایک پوشیدہ جگہ۔ جس سے آپ کا گروپ تو واقف ہے لیکن وہ لوگوں سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ چوتھا چوتھائی ایک گمنام جگہ۔ اس کی مراد اس گروپ سے ہےجو خود بھی اپنی خامیوں سے پردہ ہے اور لوگ بھی اسے نہیں جانتے۔ پھر بعد میں کہیں جا کے، ایک لمبے عرصے بعد جیسے جیسے گروپ سیکھتا رہتا ہےچوتھا چوتھائی اپنی جگہ بقیہ کسی چوتھائ میں بنا لیتا ہے۔
تبدیلی کے اصول:
1۔ کسی ایک چوتھائی میں تبدیلی بقیہ تمام حصوں پر اثر انداز ہوگی۔
2۔ جہاں باہمی تعلقات شامل ہوں وہاں اپنے افعال کو چھپانا اور ان سے انکاری ہونا زائد وقت کا طالب ہے۔
3۔ 'خوف' آگاہی میں کمی لاتا ہے جبکہ' باہمی اعتماد' آگاہی بڑھاتا ہے۔
4۔ جبرا کسی کو آگاہ کرنا ناپسند یدہ فعل ہے اور غیر مؤثر بھی۔
5۔ باہمی تعلقات کو جاننے کا مطلب یہ ہے کہ کہیں تبدیلی واقع ہوئی ہے، یعنی پہلا چوتھائی بڑا ہو گیا ہے اور باقی حصے یا ان میں سے کسی ایک کا حجم چھوٹا ہو گیا ہے۔
7۔ دوسروں کے ساتھ کام کرنے کا تعلق آزادی افکار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ کام میں مزید وسائل اور مہارتیں اپنی جگہ بنا سکتی ہیں۔
8۔ نا معلوم جگہوں کے متعلق عالمی سطح پر تجسس باقی ہے لیکن اس کا سد باب لوگوں کی مرضی، سوشل ٹریننگ یا ان کے اضطراب پر ہوتا ہے۔
9۔ نازک مزاجی کا مطلب ہے، دوسرے چوتھائی ، تیسرے چوتھائی اور چوتھے چوتھائی کے رویوں کے بدلتے رخ کا احترام کرنا اور دوسروں کے دائمی رویوں کا احترام کرنا۔
10۔ گروپ کے رویوں اور تجربات کے بارے میں سیکھتے رہنے سےگروپ اور افراد کا شعور بڑھتا ہے۔
11۔ گروپ اور ان کے لوگوں کے اقدار کا اندازہ ان کے اس رویہ سے لگایا جا سکتا ہے جس سے وہ نا معلوم یا انجان جگہ کا سامنا کرتے ہیں۔
ایک کیڑا شاید انجان بن کر مکمل خوشگوار زندگی گزار رہا ہو، بالآخر وہ اپنے آپ کو پتھروں کے نیچے رینگنے سے روک کر رکھتا ہے۔