Learning is Free, Not Education (علم مفت ہے تعلیم نہیں)

Learning is Free, Not Education (علم مفت ہے تعلیم نہیں)

Transcription of Faiez Seyal’s Urdu best-seller Audio Program “Learning is Free, Not Education” from 1995

”  پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے علم سیکھایا۔جس نے انسان کو وہ سیکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔  ”         (سورة العلق:   ١  –  ٥)

سورة العلق کی اِن پہلی پانچ آیات کے ترجمہ سے اور اس حقیقت سے کہ یہ سب سے پہلی وحی ہے جو حضرت محمدۖپر اس وقت آئی جب آپ ۖ غارِ حِرامیں عبادت میں مصروف تھے۔علم کی اہمیت واضع ہو جانی چاہئے۔لیکن افسوس ہے کہ پچھلے ١٤٠٠سال سے زائد عرصہ میں مسلمان علم سے دور ہی ہوتے چلے گئے۔

اپنی زندگی کے پچھلے دس سالوں میں’ میں علم کی اہمیت کے بارے میں مختلف سکولوں’ کالجوں اور اداروں کیلئے سینکڑوں لیکچرز دیتا رہا لیکن ان لیکچرز میں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ کئی پڑھے لکھے لوگ بھی علم کی اہمیت کے بارے میں وہ تاثرات نہیں رکھتے جو کہ ہونے چاہئیں۔ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی احساس ہواکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ شاید علم اور تعلیم کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

اس بات کا احساس اس طرح ہوا کہ ایک لیکچر کے بعد ایک اُدھیڑ عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ اس ملک کا سب سے زیادہ نقصان تعلیم یافتہ طبقے نے ہی کیا ہے’ تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ۔

اُن کے اس سوال میں ہی جواب بھی موجود تھا۔نہ ہی قرآن نے اور نہ ہی میں نے تعلیم کی بات کی۔’تعلیم یافتہ’ اور ‘علم یافتہ’ ہونے میں بہت فرق ہے۔بدقسمتی سے شاید لوگ یہ فرق بھلا چکے ہیں اور ہر تعلیم یافتہ شخص کو علم یافتہ بھی سمجھنے لگ پڑے ہیں۔

میں ہزاروں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی جاہل ہیں اور کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے سکول و کالج کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی لیکن وہ دنیا اور اس کی حقیقتوں کو اندر باہر سے جانتے ہیں اور تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود بھی ان کو جاہل نہیں کہا جا سکتا۔

جیسا کہ نامور ما ہر ِ تعلیم شخصیت ایلس بورنی نے کہا ہے:

”  دماغ کو 10لاکھ حقائق سے بھرنے کے باوجود بھی مکمل طور پر جاہل ہونا ممکن ہے۔   ”

دوسری بڑی غلط فہمی لوگوں کو یہ ہے کہ ہماری حکومت اپنے تمام شہریوں کو تعلیم کے مواقع دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔وہ اس کا الزام حکومت پر ڈال کر اپنے آپ کو آسانی سے اس الزام سے بری الزمہ کر لیتے ہیں۔ان لوگوں کے نزدیک تعلیم دینا حکومتی ذمہ داری ہے انفرادی ذمہ داری نہیں۔

اس بات کا جواب بھی یہی ہے کہ تعلیم کیلئے تو شاید آپ حکومت کو الزام دے سکتے ہیں لیکن علم حاصل کرناآپ کی اپنی انفرادی ذمہ داری ہی ہے۔ہمارے سامنے ایسی ہزاروں مثالیں اور لوگ موجود ہیں جو کہ تعلیم کے ذرائع میسر نہ ہونے کے باوجود بھی علم یافتہ کہلائے اور دنیا میں کامیاب ہوئے اور دوسری طرف ہمارا معاشرہ ایسے لاکھوں لوگوں سے بھی بھرا ہوا ہے جو کہ تعلیم کے تمام ذرائع میسر ہونے کے باوجود بھی تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت اس سے زیادہ نہ سمجھ پائے کہ یہ زندگی میں روٹی کمانے کا ذریعہ ہے۔ اور اگر روٹی کمانے کا اور کوئی طریقہ مل جائے جیسا کہ باپ کی دوکان پر بیٹھنا یا کھیت میں کام کرنا تو تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ۔

اور اسی وجہ سے انہوں نے تعلیم حاصل کرنا گوارہ نہ کیا۔اس بارے میں ایک بڑی مشہور مثال ہے جو ہمارے پیارے رسول  ۖ کی ہے جو کہ دنیا میں ایک بہت کامیاب تاجر ہونے کے باوجود بھی علم کی تلاش میں لگے رہے۔اور کسی سکول و کالج میں نہ جانے کے باوجود بھی اس پوری دنیا کے معلم بنے۔جیسا کہ مشکوٰة کی اس روایت سے ثابت ہے۔

”  بے شک میں ایک معلم بنا کر بھیجا گیاہوں۔  ”  (مشکوٰة)

یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتۖ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔اس کے باوجود کہ آپۖ کسی مدرسہ میں نہ گئے’ آپۖ کو علم ملا۔اس حقیقت سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ علم حاصل کرنا انفرادی ذمہ داری ہے اور یہ کسی مدرسہ یا معلم پر منحصر نہیں ہے۔

اس مثال کے بعد اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ آپ ۖ تو پیغمبر تھے۔ہم تو عام لوگ ہیں۔ہمارا اتنا رتبہ کہاں۔ تو جناب! عام دنیا کے عام آدمی کی مثال لے لیجئے۔

ایک غریب کسان کے گھر ایک بچے کو کچھ کر گزرنے کا بڑا شوق تھا۔اس کے گائوں سے کو سوں دور ایک سکول تو تھا لیکن اُس کے والدین کے پاس اُس کو پڑھانے کے ذرائع نہیں تھے۔ یہ بچہ کافی عرصہ سوچتا رہا کہ کیا کروں اور آخر اُس نے علم حاصل کرنے کا یہ طریقہ اپنایا کہ وہ ہمسایوں کے گھر جاتا اور اُن سے پوچھتا کہ اگر ان کے پاس کوئی کتاب موجود ہو۔ہر گھر سے کچھ نہ کچھ کتابیں تو مل جاتی تھیں۔اُس نے کتابیں اُدھار لے کر پڑھنا شروع کر دیں۔کچھ لوگ اس کے شوق کا فائدہ اُٹھانے کیلئے اُس کو اپنی کتابیں دینے سے انکار کر دیتے تھے اور کوئی نہ کوئی شرط عائد کرتے تھے۔جیسا کہ ہمارے گھر کی صفائی کرو’ہمارے باغ کی کٹائی کرو وغیرہ وغیرہ۔اُس کو کتابوں کا اتنا شوق تھا کہ اُس کو اِس میں بھی کوئی بُرائی نظر نہ آئی۔اِس طرح یہ بچہ لوگوں سے مانگی ہوئی کتابیں پڑھتا پڑھتا ایک دن قانون کا امتحان پاس کر گیا۔

آپ اُس بچے کا نام جاننا چاہتے ہیں؟ تو جناب سنیے کہ یہ بچہ بڑا ہو کر امریکہ کا صدر بنا اور اس کا نام ابراھم لنکن تھا۔

اس مثال سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ علم اور تعلیم میں فرق ہے۔تعلیم کیلئے ذرائع اور وسیلوں کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن علم حاصل کرنا انفرادی ذمہ داری ہے اور آج کی مادی دنیا میں بھی اگر کوئی چیز مفت ہے تو وہ علم ہی ہے۔

آپ تعلیم حاصل نہ بھی کر سکیں لیکن آپ کو علم حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور جن لوگوں کو علم حاصل کرنے کا شوق نہیں یا علم اور تعلیم کے فرق کا پتہ نہیں وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جاہل ہی رہتے ہیں۔

اگر چہ علم کی اہمیت کے بارے میں’میں نے تفصیلی بات اپنے ایک اور آڈیوپروگرام”عالم اسلام اور ترقی یافتہ قومیں” میں کی ہے جو کہ آگے شامل کیا گیا ہے لیکن یہاںپر مختصراً تعلیم اور علم کے فرق کو تھوڑا اور جانچنے سے پہلے ذرا علم کی اہمیت کے بارے میں کچھ کہنا چاہوںگا۔

علم کی اہمیت

”  اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟اور ہم تیری تسبیح’ حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر اُن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو تم اُن چیزوں کے نام بتائو۔ان سب نے کہا۔اے اللہ! تیری ذات پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے۔پورے علم و حکمت والا تو تُو ہی ہے۔  ”  (البقرہ : ٣٠-٣٢)

توجناب ان آیات کے ترجمے سے یہ واضح تو ہو گیا کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر سبقت دلانے والا بھی اس کا علم ہے’ اس کی سیکھنے کی صلاحیت۔ایک تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا ہو’ اچھائی اور بُرائی کی تمیز سکھائی ہو’ اس میں علم حاصل کرنے کی صلاحیت ڈالی ہو اور یہ سب نعمتیں ہونے کے باوجود اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال نہ کرے تو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن ہی جواب دیتا ہے۔سورة الانفال کی آیت نمبر ٢٢میں ارشاد ہے:

”  بلاشبہ بدترین خلائق اللہ کے نزدیک وہ لو گ ہیں جو بہرے ہیں’گو نگے ہیں’جو عقل سے کام نہیں لیتے۔  ”       (سورة الانفال:  ٢٢)

یہاں پر ایک دلچسپ حقیقت کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ قرآن پاک میں عقل سے کام لینے پر 300سے زائد جگہوں پر حکم آیا۔دنیا کی کسی بھی کتاب میں شاید عقل کو اتنی اہمیت نہ دی گئی ہو۔

تو جناب ایک طرف تو انسان کو اشرف المخلوقات بنایا’ اس کے علم اور سوچ سمجھ نے۔ دوسری طرف ایک انسان کو دوسرے انسانوں پر سبقت کا معیار بھی قرآن نے علم کو ہی ٹھہرایا۔

جیسا کہ سورة الزُّمر کی آیت  ٩میں واضع ہے:

”  بتائو تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں۔یقینا نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔  ”           (سورة الزُّمر : ٩)

یاد رکھیئے کہ دین ِ اسلام واحد دین ہے جس نے تمام مسلمان مرد اور عورتوں پر علم حاصل کرنا فرض کیا ہو۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ آج مسلمانوں اور مسلمان قوموں کی حالت دیکھ کر تو یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ لوگ اسی دین کے پیروکار ہیں۔

کچھ سال پہلے امریکہ میں ایک کورس کے دوران کلاس میں علم کی اہمیت پر گفتگو ہو رہی تھی اوراکیسویں صدی کے حوالہ سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ صرف وہ ادارے اور قومیں ہی کامیاب ہونگی جس کے لوگ علم والے ہیں۔میں کافی دیر خاموش رہا اور ان تمام باتوں کو مختلف احادیث سے ملاتا رہا۔اور اپنے دین کی دوراندیشی پر خوش ہو رہا تھا کہ ہمیں یہ باتیں 1400سال پہلے بتائی گئی تھیں جو یہ دنیا اب دریافت کر رہی ہے۔آخر کار اس میں کچھ لوگوں نے میری خاموشی کو محسوس کیا اور میری رائے دریافت کی۔میں نے سچ سچ بتا دیا کہ میں تو آپ کی تمام باتوں کو احادیث کے ساتھ relate کر رہا تھا۔اور یہ کہ ہمارے دین نے تو ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دے دیا ہے۔

یہ بات سن کر ایک صاحب نے ایک ایسا نقطہ اُٹھا دیا جس سے تو مجھے ایسالگا کہ کسی نے میرے پائوں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی ہو۔اُن صاحب نے کہا کہ ”فائز یہ بات دلچسپ نہیں ہے کہ تمہارے دین نے علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر فرض قرار دے دیا تھا اس کے باوجود تمام مسلمان قوموں کی اوسط شرح خواندگی تیس فیصد ہے اور اس میں عورتوں کا تو شاید پندرہفیصد سے بھی کم ہے۔جب کہ ہمارے مذہب نے ہم پر یہ فرض قرار نہیں دیا تھا اس کے باوجود ہماری قوم کی شرح خواندگی پچانوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین پر بھی اتنا عمل نہیں کرتے جتنا کہ ہم اپنی حکومت کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں۔

اب آپ خود سوچئیے کہ میرا کیا حال ہوا ہو گا۔جی ہاں یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اپنے دین کو پس ِپشت ڈال دیا ہے۔

علم کی اہمیت کے بارے میں ایک اور مشاہدے کی بات بھی کرنا چاہوں گا۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ناک بہت اونچی ہے؟آسان الفاظ میں ”اکڑ” بہت زیادہ ہے۔انسانی نفسیات کا علم اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جن لوگوں کی عزتِ نفس کم ہوتی ہے اُن کی ناک اونچی یعنی اکڑ زیادہ ہوگی۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو عزت کا مسئلہ بنا لیں گے۔لیکن ایک بات یاد رہے کہ ماہرِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ صحیح علم عزتِ نفس کو بڑھاتا اور جھوٹی انا کو ختم کرتا ہے۔اور علامہ اقبال کے نزدیک شاید یہی سچی تعلیم کا مقصد بھی تھاکہ وہ جھوٹی انا کو ختم کرے گی۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے’ ادھر پھیر

جو تعلیم عزتِ نفس بڑھانے اور انا کو گھٹانے کی بجائے انا کو اور بڑھا دے وہ تعلیم صحیح تعلیم نہیں ہو سکتی۔بدقسمتی سے آج تعلیم جو کہ صحیح علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی صرف کمانے کے گُر سکھانے تک محدود ہو چکی ہے۔

مختصراً علم کی اہمیت کو جاننے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ علم اور تعلیم میں کیا فرق ہے۔

علم اور تعلیم

تاریخ ِ اسلام پر نظر دوڑائیے تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً ایک سو پچاس سے دو سو سال پہلے تک تعلیم’ علم حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔اور تعلیم دینے والے معلم اور مدرسے طالب علم سے کوئی بھی قیمت وصول نہیں کیا کرتے تھے۔معلم اور مدرسے کے اخراجات مسلم حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی اور مسلم رعایا کا بنیادی حق اس وقت کے مدرسوں میں طالبِ علموں کو دین اور دنیا کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ اچھائی بُرائی کی تمیز’معاشرتی اور انفرادی ذمہ داریاں’ اخلاقیات اور آداب جیسے کہ بات چیت کا سلیقہ’ اُٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ’ کھانے کے آداب’ بڑوں کے ساتھ برتائو’ وغیرہ کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔تعلیم کا مقصد طالب علم کو اچھا انسان بنانا اور معاشرے میں عزت کا مقام دلوانا نہ کہ اُس کو کمائی کے طریقے سکھانا ہوا کرتا تھا۔

اس وقت تک علم حاصل کرنا بذاتِ خود ایک مقصد سمجھا جاتا تھا نہ کہ آج کل کے دور کی طرح جہاں مقصد کمانا بن چکا ہے اور تعلیم حاصل کرنا اس مقصد تک پہنچنے کی ایک سیڑھی۔جب مقصد ہی بدل گیا’ سوچیں ہی بدل گئیں اور تعلیم کمائی کا ذریعہ بن گئی تو صاف ظاہر ہے کہ اس کو حاصل کرنے کی قیمت لینے میں بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ابنِ ماجہ میں ایک روایت ہے۔حضور اکرمۖ نے فرمایا:

”  جو علم صرف دنیاوی فائدوں کیلئے حاصل کرے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا۔  ”

بدقسمتی سے ہماری سوچوں میں تبدیلی کے ساتھ ہی علم اور تعلیم میں جدائی ہوگئی۔اب علم مختلف شعبوں میں بٹ چکا ہے اور طالب علم کو صرف اس شعبے کی تعلیم دی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی کمائی کرنا چاہتا ہے۔دینی علوم’ اخلاقیات اور آداب کی تعلیم مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔

یہ تبدیلی صرف مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ تمام دُنیا میں آئی ہے۔اور یورپ اور امریکہ کے سیکولر تعلیمی نظام کے اثر سے ہی مسلمان ممالک کا تعلیمی نظام بھی متاثر ہوا ہے۔

سترویں صدی کے مشہور انگریز مصنف’ ماہر ِ تعلیم جان ملٹن(١٦٠٨-١٦٧٤)تعلیم کے بارے میں یہ کہتے ہیں:

”  میرے نزدیک مکمل اور شریفانہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو بحالتِ جنگ و امن اپنی اجتماعی اور نجی زندگی کے فرائض دیانت و مہارت اور عظمت کے ساتھ ادا کرنے کیلئے تیار کرتی ہے۔  ”

اسی طرح امریکہ کے چھبیس ویں صدر تھیورڈ روز ویلٹ نے کہا:

”  کسی کو اخلاقی تعلیم کے بغیر دماغی تعلیم دینے کا مطلب معاشرے کو ایک خطرناک شخص مہیا کرنا ہے۔  ”         (تھیورڈ روز ویلٹ ١٨٥٨-١٩١٩)

اس سے یہ بات تو واضع ہے کہ ستر سے اسیّ  سال پہلے تک بغیر اخلاقیات اور آداب کے تعلیم کوتعلیم نہیں سمجھا جاتا تھا۔اور اچھے کردار اورآداب کے ساتھ نہ صرف اپنی انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کو حق کی بنیاد پر گزارنا یعنی کہ صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت’ ہمت’ حوصلہ اور مہارت حاصل کرنے کا نام ہی تعلیم تھا۔لیکن بدقسمتی سے آج کل کی تعلیم تو صرف ہر حالت اور ہر قیمت پر مال و زر اکٹھا کرنے کے فن کا نام ہی رہ گئی ہے اور ڈیوک ویلنگٹن آرتھر ویسلے نے اٹھارویں صدی میں ٹھیک کہا تھا کہ

”  لوگوں کو مذہب کے بغیر پڑھانا اُن کو عقلمند شیطان بنا دے گا۔  ”

اور تاریخ ِ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ بغیر احساس اور شعورِ زندگی تعلیم یافتہ لوگوں نے دنیا کو ہلاکت ہی دی ہے۔

شاید اسی لئے آج یہ بات کی جاتی ہے کہ دنیا کو زیادہ نقصان پہنچانے والے تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔یاد رکھیئے کہ یہ وہ لوگ ہی ہو سکتے ہیں جن کا کوئی کردار نہ ہو اور وہ لامذہب ہوں۔کیونکہ کوئی تعلیم بھی جو اچھائی اور بُرائی کی تمیز نہ دے اور نہ ہی اخلاقیات اور آداب سکھائے وہ ادھوری بلکہ خطرناک ہے۔

تو جناب ! اصولی طور پر تقریباً 100سال پہلے تک تعلیم یافتہ اور علم یافتہ لوگ ایک ہی تھے۔ لیکن آجکل کے دور میں جس قسم کی دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے میں اُس کو تعلیم ہی کہوں گا علم نہیں۔اس لئے میں جب علم کا ذکر کرتا ہوں تو میرے نزدیک اس میں آج کل کی دنیاوی تعلیم کے علاوہ دین ‘اخلاقیات اور آداب بھی شامل ہیں۔جبکہ بغیر اعلیٰ اقدار اور کردار کے دنیاوی زندگی گزارنے کے فن کا نام جو آج کل کے تعلیمی اداروں میں سکھایا جا رہا ہے اُس کو تعلیم تک ہی محدود رکھتے ہیں۔اسی لئے میں یہ بات کہتا ہوں کہ تعلیم یافتہ ہونے کی قیمت چکانی پڑتی ہے جو کہ درحقیقت زندگی گزارنے اور کمانے کے فنِ عیاری اور مکاری کو سیکھنے کی قیمت ہے۔جبکہ آج کل کے دور میں جب کہ پانی اور صاف ہوا بھی مفت نہیںملتے۔ علم اور سچ آج بھی مفت ہی ہیں اس لئے کہ علم نہ ہی کسی فرد یا ادارے کی ملکیت ہے اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے پر منحصر ہے۔

لوگ آپ کو تعلیم حاصل کرنے سے روک سکتے ہیں’ علم حاصل کرنے سے نہیں کیونکہ علم کا منبع خدا ہے۔جیسا کہ سورة الاعراف کی آیت نمبر ١٨٧میں ارشادِ ربانی ہے کہ:

”  آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے۔  ”   (سورة الاعراف : ١٨٧)

 اور وہ جو علم کی خلو صِ دل سے تمنا کرے اور اس کیلئے جستجو کرے وہ اس کو عطا کرتا ہے۔

جیسا کہ سورة البقرہ کی آیت نمبر ٢٦٩میں فرمایا:

”  وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا۔  ”        (سورة البقرہ : ٢٦٩)

اور علم صرف انہی لوگوں سے دور رکھا جاتا ہے جو کہ خود اُس سے دور رہیں یعنی کہ جستجو ہی نہ کریں۔

جیسا کہ سورة االذّاریات کی آیت نمبر  ٩میں ارشاد ہے:

”  اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو اس سے باز رہے۔  ”   (االذّاریات   :  ٩)

یہاں پر ایک عام غلط فہمی کا دور کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ قرآن اور ہمارے دین ِ اسلام نے صرف دینی تعلیم کا ہی ذکر کیا ہے اور اس کی اہمیت بیان کی ہے۔

اس سوال کا جواب تو بذاتِ خود ایک علیحدہ مکمل موضوع ہے۔اس کے بارے میں دوباتیں ضرور کہنا چاہوں گا۔

آپ نے وہ حدیث تو سنی ہی ہوگی کہ” علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔” چین کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ اُس وقت عرب سے چین کی مسافت بہت زیادہ تھی۔اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں کتنی بھی دور جانا پڑے۔لیکن چلئے چین کو چین ہی سمجھتے ہیں۔تو سوال تو یہ ہے کہ اسلام تو عرب  سے آیا اور اس وقت تک تو چین میں لوگوں کو اسلام کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں تھا تو پھر چین سے کیا سیکھنا تھا۔صاحب ظاہر ہے چین سے دنیاوی علم ہی سیکھتے تھے کیونکہ چینی قوم ایک بڑی پرانی تہذیب ہے اور ان کے پاس بہت سے فنون میں مہارت تھی۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ دنیا کس نے بنائی۔صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے بنائی اور اس کے اندر جو کچھ ہے اس کو انسان کے تابع کیا۔ جیسا کہ قرآن میں سورة لقمٰن آیت ٢٠میں ارشاد ہے۔

”  کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے۔ اور تمہیں اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں۔بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں۔  ”  (لقُمٰن : ٢٠)

اب اسی دنیا میں فلکیات کا نظام بھی ہے’ درخت بھی ہے اور جانور بھی ہیں’ انسان بھی ہیں’ آبی دنیا بھی ہے’ پتھر ‘ معدنیات’ دھاتیں اور پتہ نہیں کیا کیا خزانے اللہ نے دفن کر دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ انسان کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔

اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ہی پیدا کی ہیں تو ان سب چیزوں کے  فوائد و نقصانات کا علم غیر شرعی کیسے ہوسکتا ہے؟

پتہ نہیں وہ کونسے لوگ ہیں جنہوں نے اس طرح کی باتیں کر کے مسلمان قوم کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کر دیا۔

اس بارے میں بہتر دلیل یہ ہے کہ مختلف روایات سے ثابت ہے کہ جنگوں کے درمیان جب غیر مسلموں کو پکڑا جاتا تھا تو اُن کی رہائی کیلئے حضرت محمد ۖ ایک شرط عائد کیا کرتے تھے اور وہ یہ تھی کہ دسمسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو اور آزاد ہو جائو۔تو جناب دیکھئے کہ اتنی اہمیت ہے اسلام میں پڑھنے لکھنے کی کیونکہ اس کے بغیر دُنیاوی علم حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔

تو جناب اپنی انکھیں’ کان اور دل کو کھولئے اور علم حاصل کیجئے۔ یہ آپ کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ نہیں تو لوگوں کی سنی سنائی باتوں سے اپنی زندگی ہی تباہ کریں گے۔اس topic   کے آخر تک انشاء اللہ تعالیٰ اس غلط فہمی کا اور بھی ازالہ ہو جائے گا۔

تو چلئے جناب اب آتے ہیں اصل موضوع (topic)کی طرف جو ہے’ علم مفت ہے تعلیم نہیں’۔یعنی کہ علم حاصل کرنے کے ایسے کون سے ذرائع ہیں جہاں آپ بغیر (Formal)رسمی تعلیمی مواقع یا وسائل ہونے کے بھی علم حاصل کر سکتے ہیں۔

یاد رکھیئے کہ وہ تعلیمی نظام جو کہ طالبِ علم کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے صرف اساتذہ اور مدرسوں پر منحصر کر دے وہ تعلیمی نظام ہی غلط ہے۔جیسا کہ آج کل کی مادی دنیا میں ہو رہا ہے۔شاید اسی ضرورت کو بھانپتے ہوئے ایک تعلیمی ماہر Paul Gray نے کہا تھا کہ ”صحیح تعلیم کا بنیادی مقصد طالب علموں کو  formal  تعلیم سے آزاد کرنا ہے” نہ کہ formal تعلیم کا غلام بنانا۔

1۔  علم حاصل کرنے کے ذرائع

پہلا اور شاید سب سے عام طریقہ تو ہے پڑھنا یعنی کہ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنا۔جیسا کہ سورة العلق کی پہلی آیت کے حوالہ سے پہلے ہی ذکر ہو چکاہے۔ پڑھنے کی اتنی اہمیت ہے کہ پہلی وحی جو کہ رسول اللہۖ پر نازل ہوئی وہ بھی یہی تھی کہ ”پڑھ”۔بدقسمتی سے اس کے باوجود آج یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمان قوموں میں پڑھنے کی عادت ہی ختم ہو چکی ہے اور اگر پڑھائی موجود بھی ہے تو وہ صرف افسانوں اور کہانیوں تک محدود ہو چکی ہے۔

ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں پانچ فیصد سے کم طبقہ اپنے تعلیمی نصاب کے علاوہ دیگر علمی کتابیں بھی پڑھتا ہے۔جبکہ یہ شرح امریکہ میں چالیس فیصد سے زائد ہے۔اسی طرح اس پانچفیصد لوگوں میں جو کہ نصاب کے علاوہ دوسری علمی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔اوسطاً تین سے چار کتابیں سالانہ پڑھنے والے حضرات دس فیصد سے کم ہیں۔ جبکہ امریکہ میں چالیس فیصد لوگ جو کہ نصابی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھتے ہیں اُس میں سے سترفیصد سے زائد لوگ سالانہ آٹھ کتابوں سے زائد کا مطالعہ کرتے ہیں۔

دنیا میں لکھی اور شائع ہونے والی تمام کتابوں کا ساٹھ فیصد سے زائد کام صرف امریکہ میں ہوتا ہے۔اور تمام دنیا میں کتابوں کی سب سے زیادہ فروخت بھی امریکہ میں ہوتی ہے۔مسلمان قوموں کا تو یہ حال ہے کہ ان ممالک سے اعلیٰ تعلیم کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کتابوں کا نوے  فیصد سے زائد حصہ امریکہ اور یورپ سے درآمد کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ مسلمان قوموں میں اکثر غریب اور پسماندہ ہیں اور جہاں پر پیسہ کی فراوانی ہے وہاں پر بھی پچانوے فیصد سے زائد اخراجات کپڑے’ زیورات’ Entertainment اور دوسری دکھاوے کی چیزوں پرکئے جاتے ہیں نہ کہ علم حاصل کرنے پر۔

ایک اور مزیدار حقیقت سنیئے۔پاکستان جیسے ملک میں پینتیس سال کے عمر کے لوگ جن کے پاس TV کی سہولت موجود ہے۔اوسطاً ہفتہ وارپچاس گھنٹے سے زائد TV دیکھتے ہیں۔جب کہ علم حاصل کرنے کی کوششوں پر یعنی کہ کتاب پڑھنا’ سمینارز میں جانا’ تعلیمی محفلوں میں حصہ لینا’تعلیمی کیسٹس سننا وغیرہ وغیرہ پر اوسطً ہفتہ وار دو گھنٹے سے کم وقت دیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ قوموں کے تعلیم یافتہ طبقے کے سترہ سے پینتیس سال عمر کے درمیان لوگوں میں ہفتہ وار ٹی وی دس گھنٹے سے کم دیکھا جاتا ہے۔اور غیرسکولی تعلیمی سرگرمیوں پر اوسطً ہفتہ وار چودہ گھنٹے صرف کئے جاتے ہیں۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ہماری قوم کس ڈگر پر چل رہی ہے۔

ایک طرف تو غربت کے باعث لوگوں کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے یا کتابیں خریدنے کیلئے اور دوسری طرف جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں بھی وہ چار سو روپے کھانے پر یا میوزیکل کنسرٹ attend کرنے پر خرچ کرنا پسند کرتے ہیں نہ کہ ایک کتاب خریدنے پر۔

میرا اپنا مشاہدہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں کتاب جتنی سستی ہے شاید دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔آپ کے پاس اگر زیادہ وسائل نہ بھی موجود ہوں تو آپ کو پرانی کتابوں کے سٹال سے پانچ’دس  روپے میں ایسی ایسی معیاری کتابیں مل جاتی ہیں جو کہ زندگی بدلنے کیلئے کافی ہوں۔میری اپنی ذاتی لائبریری میں ایسی سینکڑوں نایاب کتابیں موجود ہیں جو کہ میں نے اپنے کالج کے زمانہ میں پرانی کتابوں کے سٹالز سے خریدیں۔

اگر آپ کے پاس اتنے وسائل بھی نہ ہوں تو بھی ہر شہر میں Libraries موجود ہیںآپ وہاں کی ممبر شپ لے کر کتابیں پڑھنے کی عادت اور شوق پورا کر سکتے ہیں۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنے گردونواح نظر دوڑائیے ہر گھر میں کچھ نہ کچھ کتابیں موجود ہوتی ہیں۔آپ بھی ابراھم لنکن کی طرح لوگوں سے کتابیں اُدھار مانگ کر پڑھ سکتے ہیں۔

کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ اگر آپ کو کتابیں پڑھنے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہو جائے تو ذرائع کی کمی کا بہانہ آڑے نہیں آئے گا اور آپ ذریعہ خود ہی ڈھونڈ لیں گے۔

کتابیں پڑھنے کا شوق نہ صرف خود علم دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ یہ علم حاصل کرنے کے باقی ذرائع کو Support بھی کرتا ہے۔

اس سے پہلے کہ آپ آگے چلیں آج اپنے آپ سے وعدہ کیجئے کہ آپ ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ کوئی اچھی تعلیمی کتاب پڑھنے پر صرف کریں گے۔اور ہر مہینہ کم از کم دو کتابیں ضرور پڑھیں گے۔اگر وقت کی کمی ہو توTV دیکھنے سے ٹائم نکال لیں۔ماڈرن ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ جو لوگ روزانہ ایک سے دو گھنٹہ اچھی اور معیاری کتابیں پڑھتے ہیں اُن کی صحت بہتر ہے اور اُن کی اوسطً عمر بھی زیادہ ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے آپ کے جسم کو خوراک کی ضرورت ہے اسی طرح آپ کے دماغ کو جو کہ آپ کے جسم کو چلاتا ہے اُس کو بھی خوراک کی ضرورت ہے اور دماغی خوراک سیکھنا ہے ۔اور پڑھنا سیکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

کتابوں کی خرید سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ وہ علمی اور معیاری کتابیں ہوں جوکہ آپ کو دنیا کی حقیقت بتائیں نہ کہ افسانے اور گھڑی ہوئی کہانیاں جوکہ آپ کو خوابوں کی دنیا میں ہی لے جائیں۔اس بارے میں قرآن پاک میں سورة لقمٰن کی آیت نمبر ٦کو یاد رکھیئے جس میں ارشادِ ربانی ہے:

”  اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے رسوا کرنے والے عذاب ہیں۔  ”   (سورة لقمٰن: ٦)

2۔  غوروفکر

علم حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ غوروفکر ہے۔یہ تو بات ہم پہلے ہی کر چکے ہیں کہ علم انسان کو جاندار پر سبقت دلاتا ہے۔یہی علم ہے جو کہ ایک انسان کو دوسرے انسانوں پر سبقت دلاتا ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کیلئے علم حاصل کرنا فرض قرار دے دیا گیا۔

اب آپ سوچئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسانوں کے مدارج میں فرق ہوگا کسی کے پاس مادی وسائل زیادہ ہونگے اور کسی کے پاس کم۔جیسا کہ قرآن پاک سے یہ بات ثابت ہے۔

تو سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ ایک طرف تو علم حاصل کرنا فرض ہو اور اگر آج کل کے دور پر نظر دوڑائی جائے تو یہی لگتا ہے کہ ہر چیز کی قیمت ہے تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتے ہوئے کہ ایسا مادی زمانہ آئے گا علم کو صرف وسائل والے لوگوں کیلئے محدود کر دے۔دیکھئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ کسی زمانے میں حج جو کہ اسلام کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے اس کو کرنے کیلئے بھی صحت کے ساتھ ساتھ مادی وسائل کی ضرورت ہو تی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ صرف باحیثیت لوگوں پر ہی فرض کیا۔جب کہ نماز’روزہ جس پر مادی وسائل خرچ نہیں ہوتے وہ ہر شخص پر فرض ہے۔اگر علم کے بارے میں بھی یہ بات ہوتی تو یہ بھی صرف باحیثیت لوگوں پر ہی فرض کیا جاتا جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے کافی ذرائع میں سے کچھ ذرائع ایسے ہیں جس میں کسی مادی وسائل کی ضرورت ہی نہیں اور علم حاصل کرنے کیلئے تمام ذرائع میں سے سب سے زیادہ اہمیت غور و فکر کی ہے۔

کامیاب لوگوں کی ایک سب سے بڑی خوبی غوروفکر ہی رہی ہے۔دنیا کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے اُس کے سوچنے سمجھنے’ غوروفکر کرنے کی صلاحیت ہی کاربند رہی ہے۔

میں اکثر یہ بات کرتا ہوں کہ انسان کو خدا نے ایجادات کی صلاحیت نہیں دی لیکن دریافت کی صلاحیت ضرور دی ہے۔دنیا کی تمام ایجادات (جو آپ سمجھتے ہیں)اصل میں دریافت ہیں۔

جیسے کہ میں ایک دفعہ کسی کتاب میں البرٹ رائٹ برادرز کی کہانی پڑھ رہا تھا جو کہ دو بھائیوں کی تھی اور ہوائی جہاز بنانے کا سہرا اُنہی کے سر ہے۔اب آپ یہ ملاحظہ کیجئے کہ یہ کیسے ہوا۔

دونوں بھائی اپنے کھیت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک بگلے کو اُترتا اور پھر اُڑتے ہوئے دیکھا۔آپ بھی ذرا ملاحظہ کیجئے کہ بگلہ جب زمین سے کچھ اوپر رہ جاتا ہے تو وہ پہلے اپنے پائوں کھولتا ہے۔پرّوں کو نیچے کی طرف کرتا ہے۔ٹانگوں کو آگے کی طرف کرتا ہے۔ پشت جھکا دیتا ہے اور جب زمین پر اُترتا ہے تو اُتر کر کچھ دیر تک دوڑتا ہے۔اب اس سے ہوائی جہاز کی لینڈنگ کو ملائیے تو آپ حیران ہونگے کہ دو نوں میں کوئی فرق ہی نہیں۔

اسی طرح جب بگلہ اُڑنے لگتا ہے تو پہلے ہوا کی سمت وہ خشکی پر کچھ دیربھاگتا ہے۔ پھر اُڑتا ہے اور پھر چکر لگا کر اپنی منزل کی طرف اڑنے لگتا ہے۔بالکل ہوائی جہاز کی طرح۔

تو جناب بگلے کو دیکھ کر ہوائی جہازبنانے کا خیال آیا اس لئے میں جہاز کو ایجاد نہیں بلکہ دریافت کہوں گا۔

اسی طرح آبدوز اور مچھلی کو ملائیے تو آپ کو معلوم ہو جائے گاکہ آبدوز بھی کسی مچھلی کو دیکھ کر ہی بنی ہے۔کمپیوٹر اور انسان کے سسٹم میں بھی  موافقت ہے۔ جس طرح کمپیوٹر میں تین چیزیں ہیں ایک اُس کا  Processor  دوسری اُس کی  Hard Disk  اور تیسری اُس کی  RAM  ‘اسی طرح یہ تینوں چیزیں انسان کے دماغ’ اُس کا شعوری ذہن اور لاشعوری ذہن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔جس طرح کمپیوٹر میں آپ اپنی مرضی سے معلومات کو  Store کر سکتے ہیں اُسی طرح ہم اپنے ذہن میں بھی جو Store کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔

مثالیں ہزاروں ہیں لیکن ایک مثال اور لیجئے۔جب سے یہ کائنات بنی تب سے اوپر سے پھینکی ہوئی چیز زمین پر گرتی تھی۔لیکن کوئی بھی اس قانونِ قدرت کا مشاہدہ نہ کر سکا اور اگر کر بھی سکا تو شاید دوسروں تک پہنچا نہ سکا۔

اب نیوٹن سائنسدان ستر ویں صدی میں کششِ ثقل کے قوانین کو دریافت کرتا ہے اور مشہور ہو جاتا ہے۔اسی طرح یہ نیوٹن ہی تھا جس نے روشنی کو Study کیا اور یہ جانا کہ سفید روشنی سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔لائٹ بنانے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اُس پر غوروفکر کر نے والا نیوٹن مشہور ہوا۔اسی قانون کی دریافت کے دوران ہی روشنی کو منعکس کرنے کا بھی علم ہوا اور اسی وجہ سے ٹیلی سکوپ ایجاد ہوئی۔

یہ تو بڑی بڑی باتیں تھیں۔چھوٹی مثال کی طرف آجائیے۔امریکہ میں ایک گھریلو عورت اپنے چھوٹے سے بچے کے منہ میں فیڈر ڈال کر کچن میں کام کر رہی تھی۔ جو نہی وہ کام شروع کرتی تو بچے کے رونے کی آواز شروع ہو جاتی۔واپس آتی تو پتہ چلتا کہ بچے کے ہاتھوں سے بوتل پھسل گئی ہے۔ایسا تین چار دفعہ ہوا۔آخر وہ سب کچھ چھوڑ کر بچے کے پاس بیٹھ گئی۔اُس کے منہ میں بوتل ڈالی اور غوروفکر کرنے لگ پڑی کہ دودھ کی بوتل آخر کیسے گرتی ہے۔آخر اُسے سمجھ آئی کہ بچے کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے مقابلے میں دودھ کی بوتل بڑی ہے اور اُس کے ہاتھ سے Slip ہو جاتی ہے۔یہ بات سوچ کر اُس نے کاغذ اور پنسل کی مدد سے ایک نئی طرز کی بوتل بنائی جس کے دو کان تھے اور درمیان میں خلا تھا(آج کل ایسی بوتلیں آسانی سے دستیاب ہیں)۔بوتل کے کانوں کا سائز چھوٹا تھا جس کی وجہ سے اُس کو یقین تھا کہ ایسی بوتل بچے کے ہاتھ سے سلپ نہیں ہوگی۔اب اُسکے پاس وسائل تو موجود نہیں تھے کہ وہ اس بوتل کو بنانے کیلئے ایک فیکٹری بنا سکے۔آخر کار وہ اپنی بنائی ہوئی بوتل کا Design ایک کمپنی کو بیچنے میں کامیاب ہو گئی اور پھر سالہا سال تک وہ اپنی اس دریافت کی وجہ سے گھر بیٹھے پیسے کماتی رہی۔

آپ مجھے یہ بتائیے کہ ایسی کونسی صلاحیت تھی البرٹ رائٹ بھائیوں کے پاس یا اس عورت کے پاس جو کہ آپ کے پاس نہیں۔وہ صلاحیت غوروفکر کی ہی تھی۔جس سے سب کچھ ہوا اور یہ صلاحیت تو اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو دے رکھی ہے۔بدقسمتی سے شاید بہت ساروں کو اس کا علم ہی نہیں اور جن کو علم ہے وہ اسے استعمال نہیں کرتے۔

غوروفکر کا فعل اتنا اہم ہے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس کا حکم اور دعوت ملتی ہے۔اور شاید اس کے بارے میں بھی بہت ساروں کو علم ہی نہ ہو۔

سورة النحل کی آیت نمبر١١ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

”  بلاشبہ ان (اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں)میں (اس کی قدرت کی) نشانیاں ہیں غور کرنے والے لوگوں کیلئے۔  ”   (سورة النحل : ١١)

سورة النحل کی آیت نمبر  ١٢ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”  بلاشبہ ان (اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں) میں (اس کی قدرت کی) نشانیاں ہیں عقل سے کام لینے والوں کیلئے۔  ”   (سورة النحل :١٢)

سورة محمد کی آیت ٢٤میں ارشاد ہے:

”  کیا یہ قرآن کی آیات میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں ہی پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔”   (سورة محمد  :٢٤)

سورة الزاریات کی آیت ٢٠-٢١میں ارشادِ ربانی ہے:

”  اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کیلئے اور خود تمہاری ذات میں بھی۔کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو۔ ”        (سورة الزاریات :٢٠-٢١)

سورة یونس کی آیت نمبر٦میں ارشاد ہے:

”  بلاشبہ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمینوں میں پیدا کیا اُس میں نشانیاں ہیںاُن لوگوں کیلئے جو (اللہ سے) ڈرتے ہیں۔”   (سورة یونس : ٦)

دیکھئے اس آیت میں کھلی دعوت ہے رات اور دن کے نظام یعنی کہ نظامِ شمسی کے بارے میں۔

تو جناب یہ کم نشانیاں اور احکام ہیں۔مومن کی تو اہم نشانی ہی غوروفکر تھی۔جیسا کہ سورة الفرقان آیت ٧٣میں ارشاد ہے:

”  اور وہ (اللہ کے نیک بندے) ایسے ہیں کہ جب اُن کو اُن کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اندھے ہو کر اُن پر نہیں گرتے۔  ”  (سورة الفرقان : ٧٣)

اس آیت پرغورو فکر کیجئے ‘مومن کی نشانی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ قرآن پاک کی آیات کو بھی بہرے’ اندھے ہو کر قبول نہیں کرتے اُس پر غوروفکر کرتے ہیں۔

ایک طرف تو مسلمان کو یہ احکامات دیئے گئے ہوں اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ کچھ صدیوں سے تو یہ لگتا ہے کہ مسلمانوں نے غوروفکر کرنا اور سوچنا چھوڑ ہی دیاہے۔اسی لئے پچھلی کئی صدیوں سے دنیا کی تمام دریافتوں کا سہرا غیر مسلموں کو ہی مل رہا ہے۔

غوروفکر کا حال تو جناب یہ ہے کہ اکثر اوقات میں لوگوں سے پوچھتا رہتا ہوں کہ آپ کے کمرے میں کتنی کھڑکیاں ہیںتو لوگوں کو اس کا جواب ہی نہیں پتہ ہوتا۔

یہاں تک حالت ہو چکی ہے کہ سالہا سال تک ایک ہی گھڑی استعمال کرنے والوںکو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اُن کی گھڑی کے ڈائل کا رنگ کیا ہے۔

 اُس کا برانڈ کیا ہے۔ڈائل پر رومن ہندسے ہیں یا انگریزی۔

اُس کے Strap کا رنگ کیا ہے۔

ایک کار سالہاسال تک چلانے کے باوجود لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اُس کی Battery دائیں ہے یا بائیں۔اُس کا پیٹرول Tankکس طرف ہے اور اُس کے Tires کس سائز کے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ننانوے فیصد سے زائد لوگ عام لوگ ہیں اور وہ جنہوں نے اس زندگی میں کچھ کر دکھایا ہے وہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔آپ خود سوچئے کہ ہر مسئلے کا حل ڈھونڈنے سے پہلے غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔اگر غوروفکر ہی ختم ہو گیا تو کیا رہے گا۔

ذرا غوروفکر کیجئے کہ مسلمان قوم کو کیا ہو گیا ہے۔

جب یہ کامیاب تھی تو کیا کر رہی تھی اور اب کیا کر رہی ہے۔

غور کیجئے کہ دوسری قومیں کیوں ترقی کر رہی ہیں۔

اگر غور کرینگے تب ہی تو مسئلہ نظر آئے گا اور پھر ہی اُس کا حل بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

ساری قوم ہی اگر صُممُ’  بکْم ُ’ ہو جائے گی اور سوچنے والے اور غوروفکر کرنے والے لوگ ہی ختم ہو جائیں گے تو کیا بچے گا؟

ایک زمانہ تو وہ تھا جس وقت تعلیمی نظام غوروفکر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔اور آج کل یہ حال ہے کہ جو کتابوں کو رٹ سکے وہی ٹھیک ہے۔یعنی کہ اپنی عقل’ سوچ سمجھ استعمال نہ کرے۔ جو لکھا ہے بس اُس کو سچ مان لے۔جو غوروفکر کرنے والا ہواُس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

بہر حال جناب بات غوروفکر کی ہے۔اگر کامیابی چاہئے تو اس کی عادت ڈالیے۔سارا دن TV کے سامنے بیٹھ کر غوروفکر کا تو وقت ہی نہیں ملتا۔ذرا غور کیجئے کہ آپ کون ہیں۔آپ کو بنانے والا کون ہے۔آپ کے اندر کیا کیا نظام ہیں۔غور کیجئے گردونواح پر۔معاشرے کی تبدیلیوں پر۔اپنی اولاد پر۔اپنے کھانے پینے اور زندگی کی Routineپر۔

غور کیجئے کہ آپ کی زندگی کا مقصدکیا ہے۔

غور کیجئے کہ آپ سے بہتر کون لوگ ہیں اور آپ سے کمتر کون ہیں۔

غور کیجئے کہ اگر کسی کے بچے اپنے والدین کو آپ کے بچوں کی نسبت زیادہ پسند کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے۔

غور کیجئے کہ اگر کسی کے گھر میں زیادہ سکون ہے تو کیوں ہے۔

غور کیجئے کہ اگر آپ کو بیماری آتی ہے تو کیوں آتی ہے۔

غور کیجئے کہ آج کل بیماریاں معاشرے میں بڑھ کیوں گئی ہیں۔

غور کیجئے کہ شام کے وقت ہوٹلوں’ کھانے پینے کی جگہوں اور ہسپتالوں کے باہر اتنے رش کی کیا وجوہات ہیں۔

غور کیجئے کہ آسمانوں اور زمینوں میں کیا ہے۔

غور کیجئے کہ آج کل لوگوں کو کس چیز کی کمی ہے اور آپ اس کمی کو کس طرح دور کر سکتے ہیں۔

 اور ہزاروں چیزیں ہیں غور و فکر کی۔

جب آپ یہ شروع کر دینگے تو آپ کی زندگی کی لائن ہی بدل جائے گی۔زندگی کی منزل ہی بدل جائے گی۔اور یہ قوم بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے چلتے رہنے کو ہی زندگی نہیں سمجھے گی۔

اللہ تعالیٰ کو یہ پتہ تھا کہ ایسے لوگ موجود ہونگے جو کہ سوچ و بچار اور غور و فکر کی بجائے اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کا کسی کو موردِ الزام ٹھہرا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔اسی طرح کے لوگوں کا ذکر سورة یوسف کی آیت نمبر ١٠٥میں ملتا ہے:

”  اور کتنی ہی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے بے توجہی برتتے ہیں۔  ”   (سورة یوسف : ١٠٥)

اور سورة البقرہ کی آیات  ٢١٩-٢٢٠میں فرمایا:

”  اللہ اسی طرح اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ سے کام لیا کرودنیا و آخرت (کے معاملات)میں۔  ”   (سورة البقرہ: ٢١٩-٢٢٠)

اور اس طرح کے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔

سورة الاعراف کی آیت نمبر ١٧٩میں ارشاد ِ ربانی ہے:

”  ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھ کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں ہیں لیکن وہ ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔اور ان کے کان ہیں لیکن وہ ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔یہی لوگ (اپنے مقصد) سے غافل ہیں۔  ”   (سورة الاعراف : ١٧٩)

غوروفکر کی اہمیت تو اس بات سے بھی واضع ہوتی ہے کہ اگر آپ کو یہ علم ہی نہ ہو کہ جس کار کو آپ چلا رہے ہیں اُس کے انجن میں کیا کیا نظام ہیں اور یہ کیسے چلتی ہے تو آپ تو appreciate بھی نہیں کر سکتے اُس کار کو بنانے والے کی محنت اور صلاحیت کو۔اس طرح اگر کسی کو یہی معلوم نہ ہو کہ ہمارے اندر کیا نظام ہیں۔بچے کی پیدائش کیسے ہوتی ہے۔دنیا کا نظام ِ شمسی کیسے چل رہاہے۔یہ کائنات کتنی بڑی ہے۔ایک بیج سے پودا کیسے اُگ آتا ہے اور کیسے پھل آور درخت بن جاتا ہے۔ بارش کیسے ہوتی ہے’ تو وہ شخص تو اس نظام کو’ اس کائنات کو’  بنانے والے کی صلاحیتوں کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔جیسا کہ سورة فاطر کی آیت نمبر ٢٨ میں ارشاد ہے:

”  اور اللہ سے ا س کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔  ”   (سورة فاطر : ٢٨)

تو جناب آج سے اس بات کا فیصلہ کر لیجئے کہ ہر روز کم از کم 1/2گھنٹہ غوروفکر پر صرف کرینگے۔اگر آپ نے یہ کر لیا تو مجھے اس بات میں شک نہیں کہ آپ کی زندگی بھی ایسے ہی بدل جائے گی جیسے کہ 10سال پہلے میری زندگی بدل گئی تھی۔

3۔  تجربے سے سیکھنا

علم حاصل کرنے کا ایک اور موثر ذریعہ تجربہ ہے اور اس میں اپنا تجربہ اور ساتھ ہی دوسرے لوگوں کے تجربات بھی شامل ہیں۔

دیکھنے کی حد تک تو یہی لگتا ہے کہ اپنے تجربہ سے سیکھا ہوا بہتر ہوتا ہے’ دو سروں کے تجربے کی نسبت۔آج کل کے بچے بھی اپنے والدین کے تجربے سے نہیں سیکھنا چاہتے بلکہ وہ تو اس بات کو بُرا سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں والدین میں سے کوئی یہ بات کہے کہ بیٹا ہمارے تجربے سے سیکھو تو وہ یہ کہہ کر اس بات کو رد کر دیتے ہیں کہ ہم بھی جب وقت آئے گا خود ہی سیکھ لیں گے۔آپ نے بھی تو اپنے تجربے سے ہی سیکھا ہمیں بھی اپنے تجربے سے ہی سیکھنے دیجئے۔

میرا سوال تو یہ ہے کہ اگر والدین کی غلطی اولاد نے بھی دہرانی ہے تو پھر کیا فائدہ ہوا اُس غلطی کا جو کہ نئی نسل کو یہ بھی نہ سکھا سکھی کہ یہ غلطی نہ کرنا۔

اگر یہ بات دوسرے لوگوں کے تجربات سے ثابت ہوتی ہے کہ آگ سے ہاتھ جلتا ہی ہے تو کیا ضرورت ہے آپ کو خود تجربہ کرکے ہاتھ جلانے کی۔

ایک متفق علیہ حدیث تو آپ نے سنی ہوگی کہ:

”   مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔  ”

یعنی کہ مومن ایک غلطی کو دوبار نہیں کرتا۔

ضروری نہیں کہ آپ نے وہی غلطی دوبارہ کرنی ہے جس کا نتیجہ آپ کو معلوم ہے۔اگر آپ کو علم ہے کہ اسی راستے پر چلنے کا نتیجہ تباہی اور بربادی ہے تو کیا ضروری ہے کہ اُس راستے پر آپ چلنے کے بعد ہی یہ سیکھیں۔

آپ نے تجربہ کرنا ہے تو کسی نئی بات کا کیجئے۔کسی نئے راستے پر چلنے کا انتخاب کیجئے۔ایسے راستے پر جس پر کوئی پہلے نہ چلا ہو اور نہ ہی کسی کا تجربہ موجود ہو۔یاد رکھیئے کہ اگر آپ سوچ سمجھ کر وہ غلطی دوبارہ کرینگے جس کا نتیجہ آپ کو معلوم تھا تو آپ اس کا خمیازہ ضرور بھگتیں گے۔لیکن ایک ایسی غلطی جو کہ پہلے نہ ہوئی ہو اس سے معافی ممکن ہے۔

قرآن پاک کی سورة الاحزاب کی آیت نمبر ٥میں ارشادِ ربانی ہے:

”  تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو۔اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔  ”   (الاحزاب  :  ٥)

دوسروں کے تجربہ سے سیکھنے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ علمی’ دینی اور ادبی محفلوں میں شریک ہوں۔ہر شہرمیں ایسی محفلیں لگتی رہتی ہیں جہاں پر کوئی صاحبِ علم آکر لیکچر دیتے ہیں اور ان میں شمولیت کی کوئی داخلہ فیس بھی نہیں ہوتی۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ ناچ گانے کی محفلوں میں تو لوگ پیسے دے کر بھی شریک ہونے کو تیار ہیں لیکن علمی اور ادبی محفلوں میں ایک ہُو کا سا سماں ہوتا ہے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب ان لوگوں کو یہ کہا جائے کہ ایسی دعوتوں’ لیکچروں اور مساجد کے زیرِ انتظام ہونے والی تقاریب میں شمولیت کیا کریں تو آگے سے ان لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ”ہمیں پتہ ہے جی ان باتوں کا ” ۔ اب اس جواب سے دو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔

ایک تو یہ ہے کہ یہ اصحاب یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور مزید کچھ جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔میرا تجربہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص آپ کو کچھ نہ کچھ سکھا سکتا ہے اور کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔میں آج تک لاکھوں لوگوں سے ملنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ چاہے کوئی کسی شعبہ سے بھی تعلق رکھتا ہو’ چاہے کسی کی عمر یا جنس جو بھی ہو چاہے اُس کی تعلیمی قابلیت Ph.D ہو یا پرائمری یا وہ اَن پڑھ ہی ہو’ چاہے وہ صحت مند ہو یا بیمار’ چاہے وہ ملازمت پیشہ ہو یا بے روزگار یا چاہے بھکاری ہی ہو’ میں نے آج تک اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کے پاس سے کچھ سیکھا نہ جاسکے۔ایک دفعہ ایک بچہ اشارے پر رُکی ہوئی گاڑی کے پاس آکر مانگنے لگ گیا جب میں نے اُس کو فارغ کیا تو وہ ایک اور گاڑی کی طرف چلا گیا میں اُس کو غور سے دیکھتا رہا۔اُس نے جب یہ دیکھا کہ صاحب گاڑی کا شیشہ نہیں کھول رہے تو وہ دوسری طرف بیگم صاحبہ کے پاس چلا گیا بیگم صاحبہ نے اُس کو دیکھ کر صاحب کی طرح منہ موڑ لیا۔وہ بچہ  لگاتار کچھ نہ کچھ بولتا رہا۔اور آخر کار کچھ ہی سیکنڈ میں یا زیادہ سے زیادہ ایک منٹ میں بیگم صاحبہ نے شیشہ کھول کر اُس کو کچھ پیسے تھما دیے۔

آپ کے خیال میں اس بچے کے پاس سکھانے کیلئے کچھ نہیں۔

چلئے اگر آپ کو اس کے پاس کچھ اور نظر نہیں بھی آتا تو اُس کی ثابت قدمی اور لگائو دیکھئے وہ لگاتار کچھ نہ کچھ کہتا رہا اور آخر کار اُس نے کوئی ایسی بات یا ایسی دُعا ضرور ڈھونڈ نکالی ہوگی جس کی بدولت آخر بیگم صاحبہ کا دل نرم ہو گیا اور وہ شیشہ کھول کر اُس کو کچھ دینے پر مجبور ہو گئیں۔

میں کافی ایسے معذور لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ معذور ہونے کے باوجود اپنی اور اپنے بچوں کی روزی خود کماتے ہیں اور خوش و خر ّم ہیں۔تو کیا یہ سیکھنے کیلئے کچھ کم ہے۔یاد رکھیئے کہ ہر شخص جس سے آپ ملتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی بات ضرور جانتا ہوگا جو کہ آپ کو معلوم نہیں ہوگی۔چاہے اُس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسا کہ سورة یوسف کی آیت نمبر ٧٦ میں ارشادِ ربانی ہے:

”  ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر علم والا موجود ہے۔  ”   (سورة یوسف : ٧٦)

اور قرآن نے ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ تم جتنا مرضی سیکھ لو لیکن کبھی بھی یہ دعو ٰی کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے کہ تمہیں سب کچھ معلوم ہے۔سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٥اس بات کی تصدیق کرتی ہے:

”  اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا۔  ”   (سورة بنی اسرائیل : ٨٥)

تو جناب اب آپ اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ پڑھے لکھے ہیں اور اُنہیں کچھ اور سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ترمذی کی یہ حدیث تو ایسے لوگوں کو مومنوں کی جماعت سے ہی باہر نکال کرتی ہے۔

”  ایک مومن اپنے علم سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ جنت میں نہ چلا جائے۔  ”

یعنی مومن ہونے کیلئے بھی ضروری ہے کہ آپ علم مسلسل سیکھتے رہیں اور کبھی بھی اپنے علم سے مطمئن نہ ہوں۔

لیکن اگر آج کے مسلمان نے اپنا دین ہی نہ سمجھا تو اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔خیر جناب میرا اپنا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جتنا کم علم والا شخص ہوگا وہ اپنے آپ کو اُتنا ہی صاحبِ علم سمجھتا ہے۔علم حاصل کرنے کی خوبی تو یہ ہے کہ آدمی جتنا زیادہ علم حاصل کرتا ہے اتنی ہی اور طلب بڑھتی جاتی ہے۔کم علم کو تو شاید یہ بھی علم نہیں کہ علم کی انتہا کیا ہے۔اُس کے پاس جو تھوڑا بہت ہے وہ اسی سے خوش رہتا ہے۔علم حاصل کرنے کے دوران پہلا مقام تو یہ ہے کہ انسان کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ علم کی انتہا کیا ہے اور جب وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اُسے یہ بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ کتنا لاعلم ہے۔جتنا زیادہ علم ہوگا وہ شخص اپنے آپ کو اتنا ہی جاہل سمجھے گا۔

خیر جناب بات ہو رہی تھی تعلیمی محفلوں میں شرکت کی’ان محفلوں میں شریک ہونگے تو آپ کو دوست بھی اچھے ملیں گے جن کو علم و ادب سے لگائو ہوگااور پھر دوستی کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی جستجو بھی آسان ہوجائے گی۔ابودائود میں روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا:

”  ہر شخص اپنے دوست جیسا ہی ہوجاتا ہے تو ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ کسے دوست بنائے۔  ”

اب آپ خود سوچئے کہ ایک شخص جو کسی شراب و کباب کی پارٹی میں آپ کا دوست بنے یا دوسرا جو کسی ادبی محفل میں کونسا بہتر ہوگا کیونکہ آخر آپ نے ویسا ہی ہو جانا ہے۔

ترمذی میں روایت ہے کہ آپۖنے فرمایا:

”  مومن کبھی بھی اچھی باتیں سننے سے نہیں تھکتا جب تک کہ وہ جنت میں داخل نہ ہو جائے۔  ”

اب آپ سوچئے کہ آج کل کے مسلمان کا یہ حال ہے کہ تعلیمی محفلوں میں تو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں وہ بور ہو جاتا ہے اور ناچ گانے کی محفلوں میں گھنٹوں بیٹھنے کے باوجود بھی نہیں اُکتاتا۔

تو جناب تجربے سے سیکھنے کا بہترین طریقہ مشکوٰة شریف کی اس حدیث سے عیاں ہے۔آنحضرتۖ نے فرمایا:

”  او مسلمانوں اپنے بڑے بزرگوں کے ساتھ بیٹھو۔عالموں کو سوال کرو اور عقلمند لوگوں سے ملو۔  ”

4۔  سوال کرنا

علم حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ ہے سوال پوچھنا۔یہ بذاتِ خود بھی علم حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ باقی بیان کئے گئے طریقوں سے بہترین نتائج حاصل کرنے کیلئے بھی ضروری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بچے اپنی زندگی کے پہلے پانچ سالوں میں جتنا سیکھتے ہیں وہ آئندہ پچپن سالوں میں نہیں سیکھ پاتے۔اِس کی ایک بنیادی وجہ اُن کی curiosity یعنی کہ تجسّس ہے۔ جس کی تسلی وہ لامحدود سوال پوچھ پوچھ کر کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک اوسط بچہ روزانہ تقریباًچالیسسوال پوچھتا ہے جبکہ ایک نوجوان روز کے اوسطً پانچسوال پوچھتا ہے۔اسی لئے تو بچے زیادہ سیکھتے ہیں بڑوں کی نسبت۔بچوں میں سوال پوچھنے کی کوئی جھجھک نہیں ہوتی انہیں جو چیز سمجھ میں نہ آئے وہ جھٹ سے سوال پوچھ لیتے ہیں اور ہمارے زیادہ تر نوجوان تو ایسے ہیں کہ گھنٹوں کلاس میں لیکچر سننے کے بعد بھی جب اُن کی طرف سے کوئی سوال نہ آئے اور پوچھا جائے کہ کوئی سوال ہے تو اُن سے سوال تک نہیں بن پاتا۔

اتنے سال پڑھانے کے بعد میں یہ بات تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ میری کلاسوں میں جو نوجوان زیادہ سوال پوچھتے ہیں آخر اُنہی کے گریڈز بھی بہتر آئے اور جو یہ سمجھتے رہے کہ انہیں سب کچھ سمجھ آرہا ہے آخرکار یہ پتہ چلا کہ انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔

بھئی بات تو یہ ہے کہ یہ جاننے کیلئے بھی کہ آپ کو بات صحیح سمجھ آرہی ہے آپ کو سوال ہی پوچھنا پڑے گا۔لیکن ہمارے معاشرے میں لاعلمی اور جہالت نے جہاں تمام معاشرے کو برباد کر دیا وہاں ہمارے اساتذہ اکرام بھی نہ بچ سکے۔اور آج کل وہ بھی سوال پوچھنے کو پسند نہیں کرتے۔شاید اسی طرح جب وہ بچہ مسلسل 10سال کی سکول کی زندگی میں سوال کرنے سے منع کیا جاتا ہو یا اُس کو یہ لگے کہ اساتذہ اکرام یہ پسند نہیں کرتے تو وہ آہستہ آہستہ سوال پوچھنا ہی چھوڑ دیتا ہے اور اگر کوئی استاد یہ کہے بھی کہ سوال پوچھو تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں استاد کی کوئی چال ہے۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ ایک بیوقوفانہ سوال پوچھیں تو شاید آپ کو زندگی میں صرف ایک مرتبہ بے وقوف کہا جائے لیکن اگر آپ نے وہ سوال نہ پوچھا تو آپ ساری زندگی ہی بے وقوف رہیں گے۔

افسوس کہ آج کل حالت کچھ ایسی ہی ہے کہ لوگ ساری زندگی بے وقوف بنے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں لیکن کسی سے ایک سوال کر کے اپنی زندگی کے تجزیوں یا سوالوں کو پوچھنا نہیں چاہتے۔

اپنے آپ سے اور دوسرے لوگوں سے سوال پوچھنے کی عادت ڈالیے۔یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔جب آپ سوال پوچھتے ہیں تو اس کا جواب آپ کو ضرور مل جاتا ہے۔

فرض کریں کہ آپ کا معدہ خراب ہو گیا۔اب ایک طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے ڈاکٹر کی طرف جائیے اور وہ جو دوائی دے اُسے کھا کر ٹھیک ہو جائیے۔کچھ عرصہ بعدپھر بھی بیمار ہوگئے تو پھر یہ عمل دہرائیے اور اسی طرح زندگی گزر جائے گی۔لیکن اگر آپ نے اپنے آپ سے سوال پوچھا کہ آخر میرا معدہ کیوں خراب ہوا؟

 میں نے آج ایسا کیا کھا لیاتھا؟

میں نے آج ایسا کیا کیا؟

اور یہی سوال آپ ڈاکٹر صاحب سے پوچھیئے۔

اگر آپ نے ایسا کیا تو اول تو آپ کو اپنے ہی اس سوال کے بعد غور و فکر کرنے کے بعد خودہی جواب مل جائے گا اور اگر نہ ملا تو شاید ڈاکٹر صاحب سے ہی مل جائے۔

اگر آپ کو یہ پتہ چل جائے کہ آپ کا معدہ کیوں خراب ہوتا ہے یا آپ زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا اس سے کہ آپ ہر ماہ بیماری میں تکلیف اُٹھا ئیں۔اسی طرح یہ سوالات کا سلسلہ آپ دوسروں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔

فرض کریں کہ آپ کو کسی محفل میں ایک شخص بہت صحت مند’ خوش باش نظر آئے تو بجائے اس کے کہ آپ اُس کی کامیابی یا صحت سے حسد کریں اُس کے پاس جا کر اس سے دریافت کیجئے اُس کی صحت مندی اور کامیابی کا کیا رازہے۔

معلوم کیجئے کہ اُس کی خوراک کیا ہے۔

اُس کی روزانہ کی روٹین کیا ہے۔

وہ روزانہ کتنے بجے اُٹھتے اور سوتے ہیں۔

سارا دن کیا کرتے ہیں۔

آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اُن کی کامیابی اور صحت یابی کا کیا راز ہے۔

یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس کو دریافت کرنے کے بعد ان کی کونسی باتوں کو اپنی زندگی پر لاگو کرنا چاہیں گے۔

اسی طرح اگر آپ کو کسی گھر میں زیادہ سکون اور خوشی محسوس ہو تو یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ اس گھر میں ایسی کونسی بات ہے۔

اگر آپ نے یہ عادت  اپنا لی تو آپ کی زندگی میں ایک انتہائی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔اور آپ علم کے ایک ایسے راستے پر گامزن ہو جائیں گے جس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔

سوال کرنے کی اہمیت پر کچھ احادیث پیشِ خدمت ہیں:

مشکوٰة شریف کی حدیث ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا:

”  علم حاصل کرنے کیلئے ایک عقلمندانہ سوال آدھا علم ہے۔  ”

مشکوٰة شریف کی ہی ایک اور حدیث ہے کہ آپۖ نے فرمایا:

”  علم ایک خزانہ ہے جس کی کنجی دریافت کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔ لہٰذا اپنے علم میں اضافے کیلئے سوال پوچھا کرو۔ اس سے چار قسم کے لوگوں کو ثواب پہنچتا ہے ایک وہ جو سوال کرتا ہے۔دوسرا وہ جو اُس کا جواب دیتا ہے۔تیسرا وہ جو اُنہیں سنتا ہے اور چوتھا وہ جو اُن سے محبت کرتا ہے۔  ”

علم حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک اور بہت ہی اہم طریقہ سفر کرنے اور تاریخ سے سیکھنے کا ہے۔

اور اس کی اہمیت اور حکم کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث کی کتابوں میں کافی References ملتے ہیں۔

سورة یونس کی آیت نمبر ١٠١ میں ارشادِ ربانی ہے:

”  آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ (اللہ نے پیدا فرمایا) ہے اسے دیکھ اور (حالت یہ ہے کہ)ایمان نہ لانے والے لوگوں کو (اللہ کی) نشانیاں اور ڈراوے کچھ فائدہ نہیں دیتے۔  ”   (سورة یونس : ١٠١)

سورة الحشر کی آیت نمبر ٢میں ارشاد ہے:

”  سو اے آنکھیں رکھنے والے! (دنیا کی حالت سے)  عبرت حاصل کرو۔  ”  (سورة الحشر : ٢)

غور کیجئے کہ پہلی آیت میں حال کی طرف اشارہ ہے اور دوسری آیت میں ماضی کی طرف اشارہ ہے۔اور اللہ کی طرف سے حال اور ماضی کے حالات سے سیکھنے کی دعوت عام ہے۔

پہلے ماضی کی طرف آتے ہیں۔ماضی کی قوموں کی کامیابی اور تباہی کے معاملات تو ہمیں تاریخ کی کتابوں سے مل جاتے ہیں۔سوچئے کہ کتنا بڑا ذریعہ ہے علم حاصل کرنے کا۔آپ کے سامنے اگر تاریخ ِ عالم موجود ہو تو کتنا آسان ہے یہ دیکھنا کہ جو قومیں کامیاب ہوئیں اُن کی کیا خوبیاں تھیں اور وہ کونسی ایسی خامیاں تھیں قوموں میں جو اُن کی ہلاکت کا سبب بنیں۔ان حالات کو پڑھ کر ‘سمجھ کر’ان کا تجزیہ اپنی قوم کے حال کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور دیکھا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم میں تو کوئی ایسی بُرائی موجود نہیں جو کہ ہماری تباہی کا باعث بنے۔مسلمان قوم جب کامیاب تھی تو وہ بھی حالات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اب خود سوچئے کہ سیکھنے کا عمل کتنا آسان ہو جائے اگر ہمیں صحیح اور غلط کی تمیز ہو۔بدقسمتی سے آج مسلمان قوم کے اندر ایسی ساری بُرائیاں اور کمزوریاں نظر آتی ہیں جو ماضی کی کئی قوموں کی ہلاکت کا سبب بنیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ شاید کافی لوگوں کو تو اس کا علم ہی نہیں کہ وہ کیا بُرائیاں ہیں اور جن کو علم ہے وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے یا شاید اس سے قاصر ہیں۔

آپ کچھ سوچئے کہ اگر آپ ایک ایسے راستے پر چل نکلیں جس کی وجہ سے آپ کو تکالیف کا سامنا درپیش ہو تو آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ کاش آپ کو یہ پہلے کسی نے بتا دیا ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔

اب اگر مسلمان قوم بھی دن بدن زوال کی طرف گامزن ہے تو کیا ہمارے پاس تاریخ نہیں ہے کچھ سیکھنے کیلئے یا ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے؟شاید اسی وجہ سے قرآن ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ لوگوں دنیا کے حالات سے سیکھو۔

جیسا کہ سورة الر ّوم کی آیت نمبر٩میں ارشاد ہے:

”  کیا انہوں نے دنیا میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا۔”   (سورة الر ّوم : ٩)

یہ آیت آپ کو گزرے ہوئے لوگوں کے حالات سے سیکھنے کی اہمیت بتاتے ہوئے ساتھ میں سفر کی بھی دعوت دے رہی ہے۔صاف ظاہر ہے کہ اس زمانے میں تاریخ جاننے کے اور تو کوئی طریقے نہ تھے۔سوائے اس کے کہ آپ خود سفر پر نکلیں۔

اس طرح سورةحج کی آیت نمبر ٤٦ میں بھی یہی حکم ہوا۔ارشاد ہے:

”  کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں جن سے ان کے دل ایسے ہو جائیں کہ ان سے سمجھ کا کام لینے لگیں یا ان کے کان ایسے ہوجائیں کہ ان سے سننے کا کام لینے لگیں۔”   (سورةحج : ٤٦)

تو بات اصل میں یہ ہے کہ (ظاہری) آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ دل جو سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔

علم حاصل کرنے کیلئے سفر کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس آیت میں اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے باوجود کہ نصیحت اور تجربات موجود ہوں پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہی رہیں گے کہ وہ آنکھیں اور کان ہونے کے باوجود دیکھنے اور سننے سے قاصر ہونگے یعنی کہ سب کچھ دیکھتے’ سنتے ہوئے بھی اس کو سیکھنا اور سمجھنا نہیں چاہیں گے۔

اور شایدمسلمان قوم کی موجودہ بدحالی کو دیکھ کر اور سب حقائق ہونے کے باوجود ان سے نہ سیکھنے کا جواب اِس آیت میں مل جاتا ہے۔

خیر جناب بات علم کی ہو رہی تھی اور علم کی اہمیت ہمارے دین میں اتنی زیادہ ہے کہ اس کیلئے سفر میں نکلنے کا بھی حکم دے دیا گیا۔

اگر آپ کے پاس سفر پر جانے کے اور دوسری قوموں کی اچھائیاں’  بُرائیاں اور حالات دیکھنے  اور اُن سے سیکھنے کے  وسائل  موجود ہیں پھر تو مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ لیکن اگر وسائل کی کمی ہو تب بھی کتابوں اور TV کے پروگراموں نے یہ کام آسان کر دیا ہے۔ آپ گھر بیٹھے Travel Channel ‘ National Geographic’ Discovery Channel ‘History Channel ‘ BBC ‘CNN اور بے شمار دوسرے کیبل  چینلز کے ذریعے دوسری قوموں کے حال اور ماضی کے متعلق حقائق جان سکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اللہ کی اتنی بڑی کائنات جس کو دیکھنے کی اللہ نے دعوت دی ہے کو دیکھ دیکھ کر اس کا شکر بھی ادا کر سکتے ہیں۔لیکن  بدقسمتی سے آج کل TV پر بھی لوگ اس کو اچھائی کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اس کے استعمال کو لغویات اور ناچ گانے تک ہی محدود رکھتے ہیں۔

کوئی چیز نہ اچھی ہے نہ بُری اس کا استعمال اس کو اچھا یا بُرا بنائے گا۔فرض کیجئے کہ آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔ اگر آپ کو گانے کا شوق ہے۔اگر آپ اس آوازکو واحیات قسم کے گانے گا کر اور اچھل کود کر کے اپنے شوق کی تسکین کرینگے تو یہی گانا ناجائز ہے۔لیکن اگر آپ اپنے شوق کی تسکین اپنی خوبصورت آواز میں حمد یا نعت یا قومی آزادی یا شعوری بیداری کی نظمیں گا کر پڑھیںگے تو یہی چیز جائز ہے۔

اسی طرح اگر آپCable کے ذریعے آنے والے واحیات TV چینلز دیکھیں گے تو یہی آپ کیلئے وبال بن جائیں گے۔لیکن اگر آپ نے اس کے استعمال کو اپنے رب کی طرف سے عائد کئے ہوئے احکام کی بجا آوری میں خرچ کیا تو یہی Cable اور TV آپ کیلئے باعثِ رحمت ہوگا۔

آپ نے دیکھا کہ سورة روم اور سورة حج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سفر اور دنیا کے حالات جاننے کا حکم دیا۔اگر آپ ایسے Channels یا ایسے پروگرام دیکھیں جو کہ آپ کو اسی حکم کی تعمیل میں مدد کریں تو یہی نیکی ہے۔آپ خود سوچئے کہ آج کل کتنے فیصد لوگ سیکھنے اور علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرتے ہیں۔شاید 1فیصد سے بھی کم لیکن تقریباً  بیس سے پچیس  فیصد آبادی کو۔Cable اور TV تو میسر ہے اب یہ لوگ اگر TV کا استعمال لغویات میں نہ کریں بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کریں تو TV دیکھنا بھی عبادت ہے۔میں نے Cable ‘ TV کے جن Channels کا ذکر کیا ہے ان کے ذریعے آپ کو ایسی ایسی معلومات ملیں گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم و الشان کائنات کے وہ وہ راز ملیں گے’  وہ وہ خوبصورتی کے مناظر ملیں گے کہ ہر منظر پر آپ کے دل سے شکر اور اس کی تعریف ہی نکلے گی۔

تو جناب سبق صرف یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس وسائل ہیں تو سفر ضرور کیجئے لیکن صرف بزنس’ شاپنگ اور گھومنے پھرنے کی بجائے علم حاصل کرنے کی نیت سے سفر کیجئے۔اور جب بھی کہیں جانے کا ارادہ ہو یا موقع ملے تو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھیئے کہ وہاں سے آپ کیا سیکھنا چاہیں گے۔ اگر آپ نے اس سفر کو بھی علم حاصل کرنے کی ایک کڑی بنا دیا تو پھر یہ بھی عبادت ہے۔

ترمذی میں روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا:

”  جو علم کی تلاش میں نکلتا ہے وہ جب تک واپس نہیں آجاتا جہاد میں ہے۔  ”

ترمذی’ احمد’ دائود اور ابن ِ ماجہ میں روایت ہے:

”  جب ایک آدمی علم کی خاطر سفر پر نکلتا ہے تو وہ جنت کی راہ پر ہوتا ہے اور فرشتے اپنے پَر اُس کے اوپر پھیلا دیتے ہیں اور اُس کیلئے معافی کی درخواست کرتے ہیں۔آسمانوں اور زمین کی ہر چیز حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں بھی اُس کیلئے دُعا کرتی ہیں۔ ”

تو جناب وسائل کی کمی کی شکایت کرنا چھوڑیئے اور آج سے علم حاصل کرنا اپنی زندگی کا اولین فریضہ بنا لیجئے اور ہر روز پہلے سے بہتر بننے کی جستجو جاری رکھیئے۔ایک حدیث ہے کہ:

”  جس کے دو دن برابر ہوئے وہ خسارے میں ہے۔  ”

یعنی کہ جس نے آج اپنے کل سے بہتر نہیں کیا وہ خسارے میں ہے۔اگر آج آپ نے کچھ ایسا نہیں سیکھا جس سے آپ کا آج آپ کے کل سے بہتر ہے تو پھر زمانے اور دنیا کو الزام نہ دیجئے گا پھر آپ خسارے میں ہی رہیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان قوم بھی خسارے میں ہے۔جب تک اُن کا ہر آج اُن کے ہر کل سے بہتر تھا وہ ترقی کرتے رہے اور جب وہ علم کا دامن چھوڑ کر دنیا داری میں پڑ گئے تو زوال اور بدحالی اُن کا مقدر بن گئی۔

سورة العصر بہت ہی خوبصورتی سے اس حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ارشاد ہے:

”  زمانے کی قسم۔بے شک انسان خسارے میں ہے۔ماسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے۔اور نیک اعمال کیے اور حق بات کی تلقین کی اور صبر کی۔  ”   (العصر :  ١  – ٣)

چلئے مسلمان ایمان تو لے آئے اب نیک اعمال کرنے سے پہلے نیکی کا علم لینا ضروری ہے۔اور پھر اس علم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنائیے اور اپنے آس پاس کے لوگوں تک یہ علم پہنچائیے۔یہی زندگی کا مقصد ہے۔

آپ کا کام جستجو کرتے رہنا ہے نتیجہ خدا کے ہاتھ پر چھوڑ دیجئے۔

مشکوٰة شریف میں روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا:

”  جو علم حاصل کرنے کی جستجو کرے اور اُسے مل جائے اسے دوگنا ثواب ہو گا اور جو جستجو کرے لیکن ناکام ہو جائے اسے ایک گنا  ثواب ملے گا۔  ”

یاد رکھیئے کہ جن چیزوں پر آپ کا سارا دن گزر جاتاہے اُن میں سے آپ کے مرنے کے بعد آپ کے کام کوئی بھی نہیں آئے گی۔

اگر آپ کی موت کے بعد کچھ کام آئے گا تو وہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں بیان ہے:

” جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال بھی رُک جاتے ہیں۔ماسوائے اس علم کے جو اُس نے بانٹا ہو۔ یہ عمل اُ س کی موت کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے۔  ”

سورة العصر میں حق بات کی تلقین کرنا بھی یہی بیان کر رہا ہے کہ صرف علم حاصل کرنا اوراُسے اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرنا کافی نہیں۔اس علم کو حاصل کر کے اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔اُمید ہے کہ اس مختصر سے پروگرام میں کچھ مفید معلومات مل گئی ہونگی۔