Islam and Developed Nations (عالمِ اسلام اور ترقی یافتہ قومیں)

Islam and Developed Nations (عالمِ اسلام اور ترقی یافتہ قومیں)

Transcription of Faiez Seyal’s Urdu best-seller Audio Program “Islam and the Developed Nations” from 1995

آج عالمِ اسلام ایک شدید بحران کا شکار ہے۔جہاں جہاں نظر دوڑائی جائے مسلمان قومیں معاشی’ سماجی’سیاسی غرضیکہ ہر طرف سے پستی میں گری ہوئی نظر آتی ہیں اور اُن کی اِس حالت کو دیکھ کر مولانا حالی کا ایک شعر یاد آتا ہے۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے

مان نہ سکے کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو کوئی اترنا دیکھے

(مولانا حالی)

آج مسلمانوں کی ابتر حالت کو دیکھ کر نوجوان نسل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مسلمان نے اسی دنیا پر 1000سال کے قریب حکومت کی ہے اور یہ حکومت تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اپنے علم اور اعمال کی بنیاد پر کی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلما ن کی سبقت کہاں گئی جو اس کو اللہ تعالیٰ نے خود دی ہو۔جیسا کہ سورة اٰلِ عمران کی آیت نمبر ١١٠ میں ارشاد ہے:

”  تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کیلئے بہتر تھا۔ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔  ”   (سورة اٰلِعمران : ١١٠)

اس آیت پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہترین امت کا رتبہ exclusive نہیں تھا۔بلکہ بہترین امت کا رتبہ کسی وجہ سے تھا۔

یعنی کہ نیک باتوں کا حکم اور بُری باتوں سے روکنا۔

دوسری طرف سورة الانفال کی آیت ٥٣بھی اس معمہ کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے کہ آخر مسلمان کو کیا ہو گیا؟

”  اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم کی حالت ایسے ہی بدل دے جب تک کہ وہ اسے خود نہ بدلے۔  ”   (سورة الانفال : ٥٣)

اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت ایسے ہی نہیں بدل دے گا۔ بدتر سے بہتر یا بہتر سے بدتر کی طرف ) جب تک کہ پہلے وہ خود کچھ ایسا نہ کرے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہو۔

اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان جو عروج کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اُن کی یہ عروج کی حالت ایسے ہی بدل کر پستی میں  تبدیل نہیں ہو گئی جب تک کہ انہوں نے خود کچھ ایسا نہ کیا ہو۔

اب اس معمہ کو حل کرنے کیلئے  ہمیں پہلے تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر اسلام دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلا؟کیونکہ جب تک آپ اونچائیوں پر پہنچنے کی وجوہات نہ جان لیں گے نشیبوں میں گرنے کی وجوہات بھی نہیں سمجھ آئیں گی اور اگر آپ نے تاریخ کے اُوراق سے اُن وجوہات کو جان لیا جس کی بنیاد پر عالمِ اسلام دنیا پر چھا گئی تھی تو پھر آپ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آج امریکہ اور یورپ کی ترقی کی وجوہات بھی وہی ہیں جس کی وجہ سے عالمِ اسلام نے ترقی کی۔

یہ کافی حساس قسم کا موضوع ہے اور لوگ اس پر کافی جذباتی ہو جاتے ہیں۔اسی لئے میں نے گزارش کی تھی کہ جذبات کو علیٰحدہ رکھ کر سوچیں گے تو سچ نظر آجائے گا۔یاد رکھیئے کہ سچ تو سچ ہے اگر کوئی دیکھنا ہی نہ چاہے’ جاننا ہی نہ چاہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سچ چھپ جائے گا’سچ تو وہی رہے گا جو سچ ہے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ بلی کو نظر نہیں آرہا۔لیکن بلی تو موجود ہے۔کبوتر کے آنکھیں بند کرلینے سے بلی تو اندھی نہیں ہوگئی اور اسی غلط فہمی میں کبوتر اپنی جان گنوا  لیتا ہے۔اگر آنکھیں کھلی رکھتا تو شاید بچنے کی کوشش کرتا یا ترکیب بھی نکال لیتا۔

تو جناب مسلمان کا آج کل کا حال بھی کچھ اس کبوتر سے زیادہ فرق نہیں۔حقائق سے آنکھیں بند کر بیٹھا ہے اور کسی معجزے کے انتظار میں ہے۔

جب موقع ملتا ہے امریکہ’یورپ کو گالیاںنکال لیتے ہیں’ ان کے جھنڈے کو آگ لگا دیتے ہیں یا اپنی کوتاہیوں کا موردِ الزام اُن کو ٹھہرا کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔اس طرح ان کو کیا فرق پڑے گا۔مسئلہ تو ہوش سے حل ہو گا نہ کہ جوش سے۔

کبھی یہ بھی تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ جس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے آج وہ آپ پر برتری لے جاچکے ہیں یہ وہی ہتھیار ہے جس کو پہلے آپ نے استعمال کیا تھا اور دنیا میں برتری منوائی تھی۔

اِدھر ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں’یاد رکھیئے کہ قرآن پاک صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کیلئے راہِ ہدایت بن کر آیا۔قرآن پاک ہی کے بارے میں سورة ص کی آیت٨٧میں ارشاد ہے:

”  یہ تو تمام جہاں والوں کیلئے سراسر نصیحت ہے۔  ”   (سورة ص:٨٧)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ِ پاک میں بتائے ہوئے کامیابی کے اصول صرف مسلمانوں پر ہی لاگو نہیں ہوتے بلکہ ہر کوئی ان پر عمل کر کے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔اب اگر کوئی شخص یا کوئی قوم ان قوانین پر عمل کرنا ہی نہ چاہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کیلئے پستی میں گرنا ہی مقدر ہے اور اگر کوئی شخص یا قوم بھی ان قوانین پر عمل کرے تو اُس قوم یا شخص کو دُنیاوی کامیابی تو ملے گی ہی اور یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔جیسا کہ سورة البقرہ کی آیت٦٢میں ارشادِ ربانی ہے:

 ”  مسلمان ہوں’ یہودی ہوں’ نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں’ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اُن کے اجر اُن کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اُداسی۔  ”   (سورة البقرہ : ٦٢)

مجھے علم ہے کہ اس آیت سے کافی لوگوں میں غلط فہمی اور ہلچل پیدا ہوتی ہے لیکن اگر آپ اس آیت کو پورے دین کے فلسفے کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں تو غلط فہمی شاید کم یا ختم ہی ہو جائے۔

سورة اٰلِ عمران کی آیت نمبر١١٠کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:

”  تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کیلئے بہتر تھا۔ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔  ”   (اٰل عمران  :١١٠)

اس سے بھی یہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ نیک باتوں کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایمان لانا اور دوسرا یہ کہ تمام کے تمام اہلِ کتاب بُرے نہیں ہیں ان میں ایمان والے بھی ہیں۔اب اگر مسلمان یہ کام ہی نہ کریں جس کی بنا پر اُنھیں سبقت ملی تو سبقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔

میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر کوئی شخص یا قوم ترقی کر رہی ہے تو یہ ہو نہیں ہو سکتا کہ وہ کچھ ایسا کر کے جو کہ قرآن کے برعکس ہو  ترقی کر جائے۔میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ وہ سب کچھ ہی ٹھیک کر رہی ہوگی۔لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ٹھیک کر رہی ہو گی یا شاید دوسروں سے بہتر ضرور کر رہی ہو۔یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کیلئے قوانین فرق یا دوسرے لوگوں کیلئے قوانینِ قدرت فرق ہوں۔اور یاد رہے کہ یہاں میں دنیاوی کامیابی کا ذکر کر رہا ہوں۔

اب کامیابی کے قانون جاننے کیلئے قرآن پاک سے رجوع کرتے ہیں۔

پورے قرآن پاک میں کامیابی کے جو قوانین ملتے ہیں ان کو آسانی سے ایک ہی سورة میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

”  زمانے کی قسم بے شک انسان خسارے میں ہے۔ماسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق بات کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔  ”   (العصر :١-٣)

یعنی کے نیک اعمال ہی کامیابی کے سنہرے اصول ہیں۔ان نیک اعمال میں ایک دوسرے سے حسنِ سلوک’ محنت’ ایمانداری’ ایک دوسرے کا خیال’خدمتِ خلق’زکوٰة’صدقہ’خیرات وغیرہ سب کچھ ہی آجاتا ہے۔

وہ اور بات ہے کہ نیک اعمال صحیح علم کے بغیر کیے ہی نہیں جا سکتے’ اسی لئے تو علم حاصل کرنے کو بھی سبقت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے جیسا کہ سورة الزمر کی آیت ٩میں ارشاد ہے:

”  بتائو تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں۔یقینا نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔  ”   (الزمر :٩)

اگر آپ تاریخِ اسلام پر نظر دوڑائیں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کی کامیابی اور حکومت کی بنیادی وجہ ان کا علم اور اعمال تھے۔دنیا کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کی خدمات کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔اسلام آنے سے پہلے انسانیت تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور اسلام نے دنیا کو انسانیت کی تعلیم دی۔دنیا کا خواہ کوئی شعبہ صنعت و حرفت کا یا سیاست کا یا معاشیات اور سیاسیات کا یا فنونِ لطیفہ کا یا ادب کا ‘ریاضی ہو یا فزکس یا کیمسٹری ہو یا تعمیرات غرضیکہ ہر شعبہِ زندگی میں مسلمانوں نے زبردست ترقی کی۔یہاں تک کہ مسلمانوں کی درسگاہ جامعتہ الاظہر یورپ کی پہلی درسگاہ سے تقریباً 900سال پہلے بنی۔

اس وقت مقصد مسلمانوںکی تاریخی کامیابیوں کا ذکر کرنا نہیں صرف یہ باور کروانا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کی وجہ اُن کا علم اور اس علم کی وجہ سے ان کے نیک اعمال تھے۔آج تو یہ حال ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں مسلمانوں کی کوئی contribution نظر آتی ہو۔ہر شعبہ میں دوسری قومیں ہی چھائی ہوئی ہیں۔یہاں تک  کہ طب کا شعبہ جس میں مسلمانوں کی کسی زمانے میں اجارہ داری تھی آج اُس میں بھی مسلمانوں کی Contributionنظرنہیں آتی۔کسی میڈیکل سٹور پر جا کر دیکھئے تو پتہ چلتا ہے کہ 80  فیصد سے زائد دوائیاں بھی ہمارے معاشرے میں غیر مسلم معاشروں سے ہی آتی ہیں۔

فتح مکہ کی داستان تو سب کو ہی معلوم ہوگی کہ کیسے لوگوں نے مسلمانوں کیلئے اپنے شہر کے دروازے کھول دیئے اور  کسی لڑائی کے بغیر ہی مکہ فتح ہو گیا۔اسی طرح فتح مکہ کے بعد اگلے کچھ سالوں میں جہاں جہاں اسلام پہنچا بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر کشیدگی سے فتوحات ہوتی چلی گئیں۔

ذرا سوچئے کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا یہ فتوحات تلوار کی بنیاد پر تھیں؟ جی نہیں’ بلکہ اس وقت تک دنیا سے جو قافلے مکہ تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے وہ مسلمانوں کا حسنِ سلوک’ دیانتداری’تجارت میں ایمانداری’مہمانوں کے ساتھ’ غیر مسلموں کے ساتھ سلوک’معاشرتی برائیوں سے پاک معاشرہ وغیرہ کے قصے بھی اپنے ساتھ واپس لے جایا کرتے تھے اور اپنے لوگوں میں بیان کرتے رہتے تھے۔

اس طرح مسلمانوں کے علم اور اعلیٰ اعمال کی بنیاد پر جو ترقی پسند اور پُرسکون معاشرے وجود میں آئے تھے وہ دیگر لوگوں اور دیگر قوموں کیلئے ایک مثال کی حیثیت رکھتے تھے۔

اب اپنے معاشرے میں وہ ترقی اور وہ سکون کون نہیں دیکھنا چاہے گا اسی وجہ سے جب فتح مکہ کے بعد فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر جگہ کے عوام الناس نے مسلمان فوجوں کو خیر مقدم کہا۔اگر کسی شہر میں کشیدگی ہوئی تو وہ زیادہ تر اُن کے عوام کی طرف سے نہیں بلکہ جابر حکاّم کی طرف سے تھی جو کہ اپنی سلطنت کا زوال برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔

غرضیکہ مسلمانوں کے عروج کے پیچھے بھی اُن کا علم اور اچھے اعمال ہی کاربند رہے۔آپ خود سوچئے کہ کیا آپ ایسے لوگوں سے دوستی کرنا چاہیں گے جو کہ جاہل’معاشی طور پر بدحال’بددیانت’بدزبان وغیرہ ہوں یہاں تک کہ لوگ تو اپنے سگے رشتے داروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ملک یا قبیلہ ایسے لوگوں کا محکوم ہو جائے؟ تو اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ مسلمانوں کی ترقی اور کردار کی بنیاد پر ہر کوئی ان سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔

اب آپ یہ سوچئے کہ آج کل کے مسلمان کی بدحالی دیکھ کر کون مسلمان بننا پسند کرے گا؟ مسلمان معاشروں میں بدحالی’ غربت’ افلاس’ جہالت’ کرپشن’ دھوکہ’ فراڈ ایک عجیب افراتفری سی ہے۔اس حالت میں کوئی دوسرا ملک تو کیا اپنے ہی لوگ مسلمانوں اور مسلم ممالک کو reject کر رہے ہیں۔

ناکام لوگوں کے ساتھ تو کوئی بھی نہیں رہنا چاہتا۔

تو جناب غور کیجئے یہی علم اور اعمال کا ہتھیار مسلمانوں نے استعمال کر کے پوری دنیا کا دل جیت لیا اور بدقسمتی سے پوری دنیا کو اس ہتھیار کا استعمال سکھا کر خود ہی بھول بیٹھے اور آج یورپ اور امریکہ کی اقوام یہی ہتھیار استعمال کر کے مسلمانوں کو تباہ کر رہی ہیں۔غور سے دیکھئے کہ یہ وہی ہتھیار ہے جو کہ آپ نے اُن کے خلاف استعمال کیا تھا۔

آج تو پوری دنیا میں علم کے ہر شعبے میں امریکہ کی برتری ہے اور دنیا کے تمام ممالک سے لوگ وہیں پڑھنے جاتے ہیں۔

اُس قوم کی ترقی ‘خوشحالی اور کامیابی دیکھ کر ہر شخص اُس کے ساتھ دوستی اور تجارت کرنا چاہتا ہے اور اس ملک کا شہری بننا چاہتا ہے۔

زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو یا انسانی حقوق ہوں یا حقوقِ نسواں’ جانوروں کے حقوق یا بچوں کے حقوق یا پھر ماحول کی آلودگی کی بات ہو وہ تمام دنیا کو پڑھا رہے ہیں۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ چیزیں جو انہوں نے خود زیادہ سے زیادہ تیس ‘چالیس سال پہلے سیکھی ہیں وہ اب ساری دنیا کو پڑھا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو بھی جنہیں یہ باتیں 1400سال پہلے پڑھائی گئیں تھیں۔اور وہ اپنے اسی علم کی بنیاد پر تمام ممالک پر حکومت کر رہے ہیں۔

تاریخ پر نظر تو ڈالیئے جب تک علم کا منبع مسلمان ممالک میں تھا یورپ سے لوگ سپین اور مصر میں پڑھنے آیا کرتے تھے۔ اس وقت طاقت اور دنیا کی حکمرانی بھی مسلمان کے پاس ہی تھی۔

جب علم مسلمان ممالک سے منتقل ہو کر یورپ میں پہنچا تو ساتھ ہی دنیا کی حکمرانی بھی یورپ کی جھولی میں گر گئی۔یہ وہ وقت تھا جب کہ تمام دنیا سے لوگ یورپ علم حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔

اور آخرکار جب امریکہ نے سپرپاور بننے کا یہ راز دریافت کر لیا تو وہ اسی علم کی وجہ سے آج حکومت کر رہے ہیں۔جونہی علم اُن کے پاس آیا دنیا کی حکمرانی بھی اُن کی جھولی میں گر گئی۔

کیا یہی اس آیت میں ذکر نہیں کہ کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں؟

قرآن پاک کی اس آیت کی تصدیق پوری تاریخ ِ انسانی کر رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں علم حاصل کرنے اور دوسروں کو دینے کی اتنی اہمیت بیان کی گئی کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں۔

علم کے بارے میں کچھ احادیث ملاحظہ کیجئے:

 ”  علم حاصل کرو۔پیدائش سے موت تک۔  ”   (مشکوٰة’ احمد)

”  علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔  ”   (ا بنِ ماجہ’ دارمی)

”  ایک عالم عبادت گزاروں پر ایسے ہی ہاوی ہے جیسے کہ پورا چاند ستاروں پر۔  ”   (مشکوٰة)

”  ایک عالم پیغمبروں کا جانشین ہے۔پیغمبروں کی میراث دولت نہیں بلکہ علم ہے جس کا عالم جانشین ہے۔سو جو کوئی علم حاصل کرتا ہے پورا دین حاصل کر لیتا ہے۔ ”   (احمد’  ترمذی’  ابنِ ماجہ’ ابودائود’ دارمی)

”  جو علم کی تلاش میں نکلتا ہے وہ جب تک واپس نہیں آجاتا وہ خدا کی راہ میں جہاد میں ہے۔  ”   (ترمذی’ دارمی)

”  علم میں زیادتی’ عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے۔  ”   (مشکوٰة)

ذرا سوچئے کہ نبی پاک ۖ کو جو پہلی وحی آئی اُس کا پہلا لفظ بھی اقراء  تھا یعنی کہ پڑھ یہ نہیں تھا کہ خدا کو یاد کر یا عبادت کر۔

احادیث میں یہاں تک ملتا ہے کہ نبی پاک ۖ کے زمانے میں جنگی قیدیوں کو رہا کرنے  کا criteria بھی یہی تھا کہ وہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو آزاد کر دیئے جائیں گے۔

اب آپ یہ سوچئے کہ غیر مسلم مسلمانوں کو دینی تعلیم تو نہیں دے سکتے تھے۔وہ کیا تعلیم دیا کرتے تھے؟ صاف ظاہر ہے کہ لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے اور دنیاوی تعلیم دیتے تھے۔

افسوس صدافسوس جس دین نے علم کو اتنی بنیادی حیثیت دی ہو اور اس کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کر دیا ہو اُسی دین کے پیروکار آج علم سے پیدل ہیں۔

آپ ذرا سوچئے کہ عالمِ اسلام کی مجموعی اوسطاً شرح خواندگی تیس فیصد کے قریب ہے جب کہ عورتوں کی پندرہ فیصد سے بھی کم ۔

اور جب کہ یورپ اور امریکہ میں شرح خواندگی سو فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے۔یہ یاد رہے کہ یہاں پر صرف شرح خواندگی کا ذکر کر رہا ہوں علم کا نہیں۔پڑھنے لکھنے کی صلاحیت علم حاصل کرنے کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے۔جہاں پر شرح خواندگی ہیتیس’پینتیس فیصد ہوگی وہاں علم کا کیا معیار ہوگا خود ہی سوچ لیجئے۔

مسند کی ایک حدیث سنیے:

”  علم کے افلاس سے بڑھ کر کوئی افلاس نہیں اور علم حاصل کرنے سے بہتر اور کوئی بہتری نہیں۔ ”  (مسند)

اس حدیث میں علم سے محرومی سب سے بڑی مفلسی بتائی گئی ہے اور آج دنیا کے ممالک پر نظر دوڑائیں تو پتہ چل جائے گا کہ جہاں جہاں شرح خواندگی کم ہے وہاں غربت بھی زیادہ ہے۔آپ کے سامنے افریقہ کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے سے یہ دیکھنے کیلئے کہ تعلیم کا معاشرتی برائیوں سے کیا تعلق ہے ایک ریسرچ کی ۔اس سلسلہ میں میں نے سزا یافتہ مجرموں سے جیلوں میں جا کر ملاقات کی تو پتہ یہ چلا کہ وہ لوگ جو کہ مختلف سماجی برائیوں میں ملوث ہیں یا رہ چکے ہیں’ یعنی کہ چوری چکاری’ شراب نوشی’ اغوا’ گالی گلوچ’ زنا یا بالجبر’لڑائی جھگڑے’قتل و غارت وغیرہ۔اُن میں سے 90فیصد سے زائد اَن پڑھ یا کم پڑھے لکھے تھے۔

اس طرح آپ کو یہ بھی علم ہو جاتا ہے کہ جن جن ممالک یا معاشروں میں تعلیم کی کمی ہوگی’  برائیاںبھی وہاں پرہی زیادہ ہونگی۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اگر امریکہ اور یورپ کے کچھ شہروں میں جرائم زیادہ ہیں تو اس کی بنیاد ی وجہ بھی اُس معاشرے کے وہ لوگ ہیں جو اَن پڑھ جاہل یا کم پڑھے لکھے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کی تباہی اور پھر پچیس سال کے قلیل عرصے میں جاپان کی سپرپاور بننے کی داستان تو ہر ایک کو معلوم ہوگی لیکن شاید زیادہ لوگوں کو اس شاندار کامیابی اور ترقی کا راز معلوم نہ ہو۔

دوسری  جنگِ عظیم اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرنے سے جب جاپانی معیشت تباہ ہو گئی  تو ایک امریکی جس کا نام ایڈورڈ ڈیمنگ تھا جاپان گیا اور اُس نے تمام جاپانی سرمایہ کاروں کو اکٹھا کر کے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھا سکتا ہوں جس کو سیکھنے سے  پچیس سے تیسسالوں میں ہی جاپان اور جاپانی مصنوعات تمام دنیا پر چھا جائیں گی۔

اس نے اس علم کا نام ٹوٹل کوالٹی مینجمنٹ یا TQMرکھا۔

اس علم کے دو  بنیادی اصول جو اُس نے جاپانیوں کو پڑھائے وہ کچھ ایسے تھے:

1۔      جتنی مرضی غلطیاں کریں لیکن ایک غلطی دوبارہ نہیں ہونی چاہیئے یعنی کہ اگر کسی ادارے یا فیکٹری میں کسی بجلی کے ننگے تار سے کسی کو کرنٹ لگ جائے تو اس سے پہلے کہ کسی دوسرے شخص کو لگے اُس کی مرمت کر لیجئے۔اگرکسی خاص وجہ سے ایک مشین خراب ہو گئی ہے تو اس سے پہلے کہ باقی مشینیں بھی خراب ہو اُس خرابی کو دور کر لیا جائے اور نہ صرف یہ کہ خرابی کو دور کر لیا جائے بلکہ اس کے بارے میں باقی سب کو آگاہ بھی کر دیا جائے۔

اُس نے کہا کہ غلطیوں سے اگر سیکھا جائے تو یہی غلطیاں اس ادارے یا معاشرے کا سرمایہ بن جائے گا۔

اس کے بقول لوگ’ادارے اورمعاشرے ایک ہی غلطی کو بار بار دھراتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کر پاتے۔ہر غلطی یا ناکامی کچھ نہ کچھ سکھانے کیلئے ہوتی ہے اگر اس سے وہ سیکھ لیا جائے تو یہ غلطی دوبارہ نہیں ہوتی۔ جب تک غلطی یا ناکامی سے وہ نہ سیکھا جائے جس کو سکھانے کیلئے وہ سرزد ہوتی ہے ‘ وہ باربار ہوتی رہے گی اور اس کی وجہ سے انسانی محنت اور دیگر ذرائع ضائع ہوتے رہیں گے۔غلطیاں یا ناکامیاں قدرت کی طرف سے رحمت ہیں اگر ان سے سیکھا جائے۔

2۔      دوسرا اصول جو اُس نے پڑھایا وہ کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ بچپن میں آپ نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی سنی ہوگی’  جس کے مطابق جب تک کوئی فرد ‘ ادارہ یا معاشرہ روز بہتری کا عمل جاری رکھے گا وہ آہستہ آہستہ دوسرے اداروں اور معاشروں سے آگے نکل جائے گا’جو خرگوش کی طرح آگے پہنچ کر اپنی کامیابی کے نشہ میں مست ہو کر آرام کرنے لگ پڑیں۔

جیسا کہ اُس کے بقول اس وقت یورپ اپنی کامیابی کے نشہ میں اونگنے لگ پڑا تھا۔اس قانون کے مطابق جب کوئی شخص’معاشرہ یا ادارہ کامیابی کی دوڑ میں جتنا بھی پیچھے ہو ثابت قدمی’ صبر اور محنت کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھاتے رہنے سے وہ آگے نکل جائے گا۔

اس قانون کو اُس نے  Continuous Improvement  یعنی مستقل بہتری کا نام دیا۔

اس قانون کے مطابق جاپانی کارخانوں کے لوگوں کو اس اصول کی خصوصی تربیت مہیا کی گئی کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں ہر روز پچھلے روز سے بہتر ہونا چاہیے۔اگر آج ایک کام ایکگھنٹے میں ہوا تو کل وہی کام پچپن منٹ میں پھرپچاس اور پھرپینتالیس میں ہوجاناچاہیے۔اگر آج ایک کام کرنے کے ایک ہزار روپیہ لاگت آئی تو کل اسی کام پر کرنے کیلئے لاگت میں مسلسل کمی ہوتی رہنی چاہیے۔

اگر آج کسی ادارے میںپندرہ فیصد مصنوعات ضائع ہو جاتی ہیں تو یہ شرح بھی ہر روز کم ہوتی رہنی چاہیئے اور آہستہ آہستہ صفر پر پہنچ جانی چاہیئے۔

جو کام آج ایک مینجر کرتا ہے وہی کام کچھ عرصہ میں ڈپٹی مینجر کو کرنا چاہیے پھر اسسٹنٹ مینجر کو’ پھر سپروائیزر یا پھر فورمین کو اور آہستہ آہستہ وہی کام ایک ورکر لیول تک ہوجانا چاہیئے۔

اس طرح اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرتا گیا اور آہستہ آہستہ وہی کام جس کو کرنے کیلئے 50,000 روپے تنخواہ والے شخص کی ضرورت تھی وہی کام 10,000روپے کی تنخواہ لینے والے ہی نے کرنا شروع کر دیا۔

اس طرح کی اس قانون کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور اس کو زندگی کے ہر شعبے میں apply کیا جا سکتا ہے اور اسی قانون کی وجہ سے جاپانی مصنوعات کی کوالٹی بڑھتی گئی اور قیمت مسلسل کم ہوتی گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ان دونوں قوانین پر عمل کر کے جاپان پچیس سالوں میں پوری دنیا پر چھا گیا۔

دنیا کے نزدیک یہ جاپانیوں یا امریکیوں کی دانش مندی اور قابلیت کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔میرا ایمان یہ ہے کہ کامیابی کا ایسا کوئی بھی قانون نہیں ہو سکتا ہے جو کہ قرآن پاک یا احادیث میں موجود نہ ہو۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کو مکمل دین اورقرآن کو مکمل کتاب کہا ہی نہیں جا سکتاتھا۔

لوگوں کے نزدیک تو اسلام مذہب ہے اور اس میں مینجمنٹ یا معاشیات کے بارے میں اسباق تو موجود ہو ہی نہیں سکتے۔آپ یہ سن کرحیران ہونگے کہ مجھے آج تک دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہیں مل سکا جس کے بارے میں قرآن پاک میں بنیادی اصول موجود نہ ہوں۔اب صاف ظاہر ہے کہ قرآن پاک ایک ہزار کے قریب صفحوں کی کتاب ہے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ان ایک ہزار صفحوں میں دنیا کے ہر شعبے کے بارے میں تفصیلی باتیں لکھ دی جائیں لیکن ہاں ان میں ان کے بارے میں بنیادی اصول و ضوابط موجود ہیں جو کہ اُن ہی لوگوں کو مل سکتے ہیں جو قرآن کو صرف پڑھتے نہیں بلکہ اس کو سمجھتے ہیں اور اُس کی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں جیسا کہ سورة الز ّمر کی آیت ٢٧میں ارشاد ہے:

”  اس قرآن میں ہر طرح کی مثال ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ ”   (الزمر :٢٧)

اور سورة محمدۖ کی آیت٢٤میں ارشادِ ربانی ہے:

”  کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں۔”   (سورة محمدۖ :٢٤)

اور احادیث کے بارے میں سور ةالاحزاب کی آیت٢١میں ارشاد ہے:

”  یقینا تمہارے لئے رسول اللہۖ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ ”  (سورة الاحزاب  :٢١)

اس آیت سے احادیث کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے۔

اب دیکھئے کہ احادیث میں اُ ن دو اصولوں کے بارے میں جن کا پہلے ذکر کر چکا ہوں اور جن کو جاپان کی کامیابی کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے’ کیا کہا گیا تھا۔

پہلا اصول ایک غلطی دوبارہ نہ کرنے کے بارے میں متفق علیہ حدیث ہے۔

”  مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔  ”

اور دوسرے اصول روز بہتری کے عمل کے بارے میں حدیث ہے کہ

”  جس کے دو دن ایک جیسے ہوئے وہ خسارے میں ہے۔  ”

اب آپ خود سوچئے یہ دو جملوں میں کتنی خوبصورتی سے پورے دو قوانین بیان کر دیئے گئے۔

اگرصرف یہ دو ہی قانون ایک تباہ شدہ قوم کو تیس سال کے قلیل عرصہ میں دنیا کی سپرپاور بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اگر 1400سال سے مسلمان انہی دو اصولوں پر کاربند رہتے تو آپ سوچئے کہ آج مسلمان قوم کس مقام پر ہوتی۔

افسوس کہ دنیا کو علم دے کر مسلمان خود سو گیا اور بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم نے دین کو سمجھا ہی نہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میںچودہ کروڑ کی آبادی میں سے صرف چھ سے سات فیصد لوگوں نے قرآن پڑھا ہے اور اس میں سے بھی  0.5  فیصد سے کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہو۔باقی مسلمان قوموں کا بھی حال کوئی زیادہ مختلف نہیں۔اب ان سات لاکھ کے قریب لوگوں نے جنہوں نے قرآن کو ترجمے سے پڑھا ہو اُن میں سے کتنے لوگ ہونگے جنہوں نے اس پر غور و فکر بھی کیا ہو اور پھر اس پر عمل کر کے دوسروں تک پہنچایا بھی ہو۔مسلمان قوم جو نیکی کی ہدایت کرنے اور بُرائی سے روکنے کیلئے آئی تھی آج کچھ سلسلہ الٹ ہو چکا ہے۔برائی میں سب ساتھ دینے کو تیار ہیں اور نیکی میں ساتھ دینے کیلئے کوئی ہی تیار نہیں ہوتا۔

ذرا غور کیجئے کہ میوزیکل کنسرٹس اور فیشن شوز کیلئے کتنی دولت خرچ کی جاتی ہے اور اگر ایک مسجد یا سکول بنانے کی باری آئے تو 10روپے چندہ دیتے ہوئے بھی جان جاتی ہے۔

آج مسلمان قوموں کی حالت کو دیکھ کر اقبال کے اس شعر کی افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جانتا ہوں میں کہ یہ اُمت حاملِ قرآن نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین

( علامہ اقبال)

سوچئے کہ دنیا میں شائع ہونے والی تمام کتابوں کا ساٹھفیصد سے زائد صرف امریکہ میں لکھا اور شائع ہوتا ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ کتابیں امریکہ میں ہی پڑھی جاتی ہیں۔آخر کیوں؟

ذرا غور کیجئے کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں پڑھی جانے والی کتابوں کانویفیصد سے زائد امریکہ اور یورپ سے درآمد ہوتا ہے۔آخر کیوں؟

مزید یہ کہ مسلمان ممالک میں لکھی جانے والی تمام کتابیں پوری دنیا کی کتابوں کا ایک فیصد سے بھی کم ہے اور وہ بھی زیادہ تر صرف مذہبی کتابوں تک محدود ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ آج مسلمانوںکی دنیا میں علم کی contribution نہ ہونے کے برابر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے عروج کے دنوں میں قرطبہ کے شہر میں تقریباً 80,000دُکانیں موجود تھیں اور اُن میں سے پچیس فیصد سے زائد یعنی کہ تقریباً20,000دکانیں کتابوں کی تھیں۔یاد رکھیئے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب کہ Printing کی سہولت موجود نہیں تھی اور کتابیں ہاتھ سے ہی لکھی جاتی تھیں۔ذرا ملاحظہ ہو کہ کتنا علم تھا مسلمانوں کے پاس۔

ذرا آج ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کے شہر میں کتابوں کی کتنی دوکانیں ہیں اور اُن میں رسالے اور فحش میگزین نکالنے کے بعد اس میں کتنی کتابیں علم و ادب کے زمرے میں آتی ہیں۔

اس بارے میں ایک اور بات واضح کرتا چلوں کہ علم علم ہی ہے اور اسے دینی اور دنیاوی حلقوں میں بانٹنا نہیں چاہیئے۔اس دنیا کو بنانے والا اللہ ہی ہے اور اس دنیا میں ہر چیز کو بنانے والا بھی وہی ہے۔جس طرح زمین کو بنانے والا اللہ ہے اور زمین کے علم کو ہم Geologyکہتے ہیں۔درختوں’ پودوں کو بنانے والا بھی اللہ ہی ہے اور اس کے علم کو ہم Botany کا نام دیتے ہیں۔کائنات کو بنانے والا اللہ اور کائنات کے علم کو ہم فزکس کا نام دے دیتے ہیں۔کیمیائی مادے بنانے والا اللہ اور اُس کے علم کا نام کیمسٹری’  انسان کو بنانے والا اللہ اور اس کے علم کا نام میڈیسن یا سائیکالوجی۔

تو پھر یہ دین اور دنیا کا چکر کیسے آگیا۔

سورة فاطر کی آیت٢٨میں ارشاد ہے:

”  اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔  ”   (فاطر  :٢٨)

یعنی کہ ایک جاہل آدمی تو اس سے ڈرنے کے قابل بھی نہیں۔جس شخص کو یہ علم ہی نہ ہو کہ اُس کے اندر کا نظام کیا ہے’ نظام شمسی کیسا ہے اور کیسے چلتا ہے’ یہ کائنات کتنی بڑی ہے اور اس میں کیا کیا نشانیاں ہیں’ قیامت کب آئے گی’ کیسے آئے گی اور حساب کتاب کیا ہو گا’ زلزلے کیوں آتے ہیں’تباہیاں اور سیلاب کیسے آتے ہیں۔ وہ شخص تو اللہ سے ڈرنے کے قابل بھی نہیں اور باتیں تو آپ چھوڑ ہی دیجئے۔

آج مسلمان قوم کا یہ حال ہے کہ میوزیکل کنسرٹس اور فیشن شوز کا چار سو  یا پانچ سو  کا ٹکٹ تو سفارشوں سے اور لائنوں میں لگ کر خریدنے کو تیار ہے’ پانچ سو  روپے کا کھانا بھی کھایا جا سکتا ہے۔ ہزاروں روپے کپڑوں ‘ زیورات اور دوسری عیاشیوں پر بھی خرچ کئے جاتے  ہیں لیکن تین سو  یا چار سو روپے کی ایک کتاب جو اس کی ساری زندگی کو بدل سکتی ہے وہ اس کو خریدنے کو تیار نہیں۔

تعلیمی سیمینارز اور قرآن و حدیث کے لیکچرزجس میں کسی پیسے کے بغیر شمولیت کی جا سکتی ہے وہ تو آپ کو خالی نظرآتے ہیں اور میوزیکل کنسرٹس جہاں پر ٹکٹ بلیک میں بک رہے ہوں وہاں پر آپ کو ہزاروں کا مجمہ نظر آتا ہے۔

جیسے کہ ایک صاحب نے جو کہ ایک بڑے اسلامی ملک میں ملازمت کرتے ہیں بتایا کہ اُن کے شاہ نے لاکھوں ڈالرخرچ کر کے اپنے چھوٹے سے ملک میں تاریخی اجتماع کروایا جہاں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔کیا آپ کو یہ پتہ ہے کہ وہ اجتماع کیا تھا۔جناب وہ اجتماع تھا مائیکل جیکسن کا کنسرٹ جس پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے۔

کیا یہ پیسہ علمی یا فلاحی کام کیلئے خرچ نہیںکیا جا سکتا تھا؟

تو جناب اگر یہ قوم جو کہ علم لینے اور بانٹنے کیلئے بنائی گئی ہو عیاشیوں’ دولت کی نمائش اور ناچ گانے میں پڑجائے تو تباہی تو آئے گی ہی۔

اس وقت ایک فلاسفرکی بات یاد آرہی ہے جس کا نام ذہن سے اُتر گیا۔

اس نے کہا کہ کسی معاشرے یا قوم کو تباہ کرنا ہو تو اُس کے علم کے تین ذرائع کو تباہ کر دووہ قوم کسی لڑائی یا جنگ کے بغیر خود ہی تباہ ہو جائے گی۔

چلئے آپ سے سوال پوچھتا ہوں علم کا پہلا ذریعہ کون ہے؟جناب بچے کیلئے سب سے پہلا اُستاد اُس کی ماں ہے اور مسلم ممالک میں عورتوں کی شرح خواندگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خاص طبقے نے ذاتی مفادات کیلئے عورت کو جاہل چھوڑ دیا اور یہ بھول ہی گئے کہ اگر ماں کو ہی جاہل چھوڑ دیا تو یہ ماں آئندہ  آنے والی نسلوں کو ہی تباہ کر دے گی۔ جس ماں نے نئی نسل کی تربیت کرنی ہو وہی اگر جاہل رہ گئی تو کیا تربیت کرے گی؟آپ آگے پیچھے نظر دوڑائیے کہ ہم نے یہ کام کتنی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔

جب وہ مائیں ہی نہیں رہیں گی جو کہ ہر رات اپنی اولاد کو مسلمان لیڈروں کی کامیابیوں اور کردار کی کہانیاں سنا سنا کر اپنے بچوں کا کردار بنائیں تو صاف ظاہر ہے کہ بچے ویسے ہی جاہل رہیں گے۔آج کل کی مائوں کو تو خود اسلام اور اس کے لیڈروں کے نام تک معلوم نہیں۔دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور مسلمان کس مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور اس وقت نئی تعلیم یافتہ نسل کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔اگر وہ اِن تمام چیزوں سے پیدل ہے تو وہ اپنی اولاد کی تربیت کیا کرے گی۔

بدقسمتی سے آج نئی نسل کا کردار بنانے کا کام ٹی وی اور انڈین فلمیں کر رہیں ہیں۔ماں ٹی وی پر فلم دکھا کر یا کارٹون دکھا کر بچوں کو سلا دیتی ہے اور بڑا فخر محسوس کرتی ہے۔

جیسا کہ ایک ماڈرن ماں نے بڑے اسٹائل سے کہا میں کیا کروں جناب میرے بچوں کو تو انڈیا کی فلم دیکھے بغیر نیند ہی نہیں آتی۔جب وہ دیکھتے ہیں تو میں بھی اُن کے ساتھ دیکھ لیتی ہوں۔

ماں کے بعد بچہ سکول جانے سے پہلے ایک اور درسگاہ میں جاتا ہے جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے اس درسگاہ کو چرچ یامسجد کہہ لیجئے  اور اس درسگاہ کو جس میں ایک اچھے شہری بننے کی ابتدا اور ایک پُرامن اور باکردار معاشرے کی بنیادیں رکھی جاتی ہیںکو اگر تباہ کر دیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ معاشرہ بھی تباہ ہو جائے گا۔

ہم نے یہ کام بھی بہت ہی نیک نیتی سے کیا اور اپنی مسجدیں اور درسگاہیں ایسے لوگوں کے حوالے کر دیں جنہوں نے نئی نسل کو اسلام سے دور کر دیا۔

جو شخص معاشرے میں کچھ نہ کر سکا اُس کے حوالے مسجد کر دی۔آپ خود سوچئے کہ دین دنیا کیلئے آیا نہ کہ دنیا دین کیلئے۔دین دنیا کو گزارنے کے ڈھنگ کا نام ہی تو ہے۔اب ایک شخص جس نے دنیا دیکھی ہی نہ ہو نہ ہی وہ دنیا کے علوم سے آگاہی رکھتا ہو اُسے ہم نے دنیا کے علم سکھانے کا استاد بنا لیا۔

اور پھر ہم اس بیچارے اُستاد کو جس کی تعلیم پر پورے معاشرے کی قسمت کا دارومدار ہے اُس کی خدمات کا کیا معاوضہ دیتے ہیں اوراُس کی کیا عزت کرتے ہیں۔

ذرا غور کیجئے کہ امریکہ’ یورپ میں چاہے آپ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوں یا چاہے آپ ملک کے صدر ہی کیوں نہ ہوں آپ کو اگر اپنی اولاد کی شادی کرنا ہے تو آپ کو چرچ میں جانا پڑتا ہے۔وہ قوم جیسی بھی ہے لیکن اپنے پادریوں کی اور استادوں کی عزت تو کرتی ہے اور اسی عزت کی وجہ سے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ پادری صاحب کو گھر بلا لیا جائے۔ یہاں ہمارے ملک میں یہ حال ہے کہ میں نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا ”اوئے مولوی نوں بلا لیا” جب بیٹے نے کہا کہ ابا جی نماز کا وقت ہے ٹھہر کر جاتا ہوں تو وہ شخص پیسے کے جلال میں آکر بولا۔اُوئے اوہنوں 1000روپیہ وکھائیں آپ ہی سب کجھ چھڈ کے آجائے گا” اس موقع پر علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آیا۔

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری’ ہوس کی وزیری!

(اقبال)

سوچئے کہ کتنے لوگ شادی کیلئے مسجد میں جانا پسند کرتے ہیں۔یہ درسگاہ بھی ہم نے خود ہی تباہ کر دی اور پھر بھی نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی غلطیوں کا الزام دوسرے لوگوں کو ٹھہرانے سے نہیں کتراتے۔اب پہلی دونوں درسگاہوں کے بعد باری آتی ہے تیسری قسم کی درسگاہوں کی’ جس کو سکول و کالج کہا جاتا ہے۔ان کی حالت بھی آپ کے سامنے ہی ہے کہ استادوں کا معیار کیا ہے اور کس طرح کے لوگ اس مقدس پیشے سے منسلک ہیں اور سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ جس طرح کا معاشرہ ہو گا اُستاد بھی تو آخراُسی معاشرے سے ہی نکل کر آرہے ہیں۔نہ وہ اُستاد رہے اور نہ ہی وہ شاگرد۔وہ اُستاد جو اپنے طالبِ علموں کی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کی ہر شے سے زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے اور پھر اس طرح کے شاگرد بھی ساری عمر اپنے اساتذہ کو یاد رکھتے تھے۔انگریزی میڈیم سکولوں کی ٹیچروں کو دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ وہ فیشن شو کیلئے آئی ہیں اور بیچارے اُردو میڈیم سکولوں کے اساتذہ معاش کی کمی کی وجہ سے دل لگا کر پڑھا  ہی نہیں سکتے۔

تو جناب یہ تھے وہ تین اہم ادارے جن کو تباہ کر کے ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے معاشرے کو مفلوج کر دیا اور اُس کے باوجود معاشرے کا کوئی شخص خود کو الزام دینے کیلئے تیار ہی نہیں۔اب سوچئے کہ ان اداروں کو تباہ امریکہ یا یورپ نے کیا ہے یا کہ ہمارے اپنے ہی لیڈروں نے کیا؟

 اس حالت کا بیان علامہ اقبال کا یہ شعر کرتا ہے۔

اس عشق ‘ نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دِل

ہر داغ ہے اس دِل میں بجز داغِ ندامت

(اقبال)

اس سے پہلے کہ میں اعمال کی طرف آئوں علم پر دوبہت ہی خوبصورت احادیث ہیں جو کہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ علم کی مکمل اہمیت اور افادیت کو بیان کرتی ہیں۔

حضرت معاذ بن جبل  نے حضور اکرم ۖ کے بارے میں ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس سے علم کی ضرورت و اہمیت اور افادیت پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے۔ حضور اکرمۖ نے فرمایا-:

”  علم حاصل کرو اللہ کیلئے علم حاصل کرنا نیکی ہے۔اس کی طلب عبادت ہے’  اس میں مصروف رہنا تسبیح اور بحث و مباحثہ کرنا جہاد ہے۔علم سکھاء و تو صدقہ ہے۔علم تنہائی کا ساتھی’ فراخی اورتنگدستی میں رہنما’ غم خوار دوست اور بہترین ہم نشین ہے۔علم جنت کا راستہ بتاتا ہے۔اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے ہی قوموں کو سر بلندی عطا فرماتا ہے۔ لوگ علماء کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز ان کیلئے دعائے مغفرت کرتی ہے۔کیونکہ علم دلوں کی زندگی ہے اور اندھوں کیلئے بینائی۔علم جسم کی توانائی اور قوت ہے۔ علم کے ذریعے انسان فرشتوں کے اعلیٰ درجات تک پہنچتا ہے۔علم میں غوروخوض کرنا روزے کے برابر ہے اور اس میں مشغول رہنا نماز کے برابر ہے۔علم ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صحیح اطاعت اور عبادت کی جا سکتی ہے۔علم سے انسان معرفتِ خداوندی حاصل کر سکتا ہے۔اس کی بدولت انسان اللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔علم ایک پیش رو اور رہبر ہے اور عمل اس کا تابع۔ خوش قسمت ہیں وہ جو علم حاصل کرتے ہیں اور بدقسمت اس سعادت سے محروم رہتے ہیں۔ ”

اس حدیث میں اس جملہ پر ذرا غور کیجئے جس میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے ہی قوموں کو سربلندی عطا فرماتا ہے۔جیسا کہ اب تک ہم اس معاملے میں بات کرتے آئے ہیں۔

ایک اور حدیث میں بیان ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا:

”  علم مومن کا ہتھیار ہے۔  ”

یہ حدیث بھی ہماری بات کو وزنی کرتی ہے کہ مسلمان قوم کی ترقی کی وجہ اُس کا علم تھا اور علم ہی ایسا ہتھیار ہے جس کا توڑ نہیں کیا جا سکتا۔

اب آئیے اچھے اعمال کی طرف کیونکہ قرآن پاک میں علم کے ساتھ لوگوں’ معاشرے اور قوموں کی برتری کی بنیاد اعمال کو بھی بنایا گیا ہے۔

جیسا کہ سورة الانعام کی آیت نمبر١٣٢ میں ارشادِ ربانی ہے:

”  ہر ایک کیلئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے۔  ”   (الانعام  :١٣٢)

جیسا کہ پہلے بیان کر دیا کہ بغیر علم کے اچھے اعمال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اسلامی معاشرے پُر سکون اور معاشی طور پر خوشحال معاشرے ہوا کرتے تھے اور آج کل اسلامی معاشرے دیکھیں تو ان کی حالت مکمل طور پر اُلٹ چکی ہے۔گھروں میں’ دفتروں میں’ سڑکوں پر’ بازاروں میں کہیں بھی سکون نہیں’ ایک بد نظمی اور اشتعال کا عالم نظر آتا ہے۔غلاظت کے ڈھیر’ ہمسایوں کے حقوق کی پامالی’ اونچی آواز میں ریڈیو وغیرہ سے معاشرے کا سکون تباہ’ سڑکوں پر بدنظمی’ ہر کوئی آگے نکلنے میں مشغول’بھیک مانگنے والوں کے لشکر’ سڑکوں پر رکاوٹیں اور پیدل چلنے والوں کیلئے دشواری غرضیکہ ہر بات مسلمانوں کی جہالت اور پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مسلمان معاشرہ جو کہ ایک رفاعی مملکت ہوا کرتا تھا اور مسلمان حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرے اور اس کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرے آج آپ کو شاید کسی اسلامی ملک میں رفاعی مملکت کے نظام کا عکس بھی نظر نہیں آتا۔

اس آڈیوپروگرام میں بہت زیادہ مثالیں تو بیان کرنا ممکن نہیں ہے صرف ایک سچا واقعہ پیشِ خدمت ہے جس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری قوم کس ڈگر پر چل رہی ہے۔

ایک صاحب جو کہ دبئی میں ملازمت کرتے تھے۔اپنی ماں کی شدید علالت کی خبر سن کر سحری کے وقت لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ماں کی وفات ہو گئی ہے تو وہ صاحب سیدھے ایئرپورٹ سے سرکاری ہسپتال چلے گئے جہاں پر ماں کا کچھ دن   علاج ہوا تھا۔

کچھ لمحے کے بعد جب ماں کی نعش کو گھر لے جانے کیلئے ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک لمبا سا بل بنا کر پیش کر دیا کہ جب تک یہ بل نہیں ادا کیا جائے گا ہم نعش کو ڈسچارج نہیں کر سکتے۔

اب صاحب نے ہسپتال کی انتظامیہ کو ساری صورتحال بتا ئی اور کہا کہ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں اور ہمارے پاس اس وقت اتنے پاکستانی روپے  نہیں ہیں۔میرے پاس دبئی کی کرنسی یعنی کہ درہم ہیں صبح ہوتے ہی جونہی بنک کھلتے ہیں کرنسی تبدیل کروا کرمیں Payment کردوں گا اب آپ کم از کم تین چار گھنٹے کیلئے تو مجھ پر اعتبار کیجئے اور  ماں کی نعش کو گھر تو لے جانے دیجئے۔ہسپتال والوں نے صاف انکار کر دیا اب وہ صاحب صبح کے چھ بجے سے آٹھ بجے تک ہسپتال میں آنے والے لوگوں اور دائیں بائیں کی دوکانوں والوں کو اپنے درہم دے کر روپے لینے کی کوشش کرتے رہے اور لوگ ان کی مجبوری اور جلدی کو دیکھ کر یہ سوچتے رہے کہ شاید یہ کوئی فراڈ ہے یا شاید درہم ہی جعلی نہ ہوں غرضیکہ اُن کو پیسے نہ ملے اور صبح 10بجے تک ماں کی نعش ہسپتال میں ہی پڑی رہی۔

یہ ہے ایک اسلامی مملکت کا ایک چھوٹا سا خاکہ۔ ذرا غربت کا اندازہ کیجئے اور دیکھئے کہ کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں؟کتنے لوگوں کو طبی امداد میسر نہیں؟ کتنے لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں؟ کتنے لوگوں کو چھت میسر نہیں؟

عالمِ اسلام کے غریب ممالک کی طرف نظر دوڑائیے تو یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان کی مدد کیلئے امیر مسلم ممالک کیوں نہیں آتے لاکھوں لوگ ہر سال بھوکے مر جاتے ہیں یا طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔اس واقعے کے تضاد میں’  میں نے یورپ اور امریکہ میں جو دیکھا وہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ شاید کبھی اس پر ایک کتاب لکھ ڈالوں۔لیکن ایک دو واقعے سنتے چلئے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ غیر مسلم ممالک آج کیوں دنیا پر چھا چکے ہیںاور اُن کی کچھ بُرائیوں کے باوجود بھی اُن کی کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو شاید ان پربھاری ہیں۔

ایک میرا ذاتی تجربہ امریکہ میں١٩٨٨ئ میں ہوا جو کہ  پیشِ خدمت ہے۔

ایک دن رات کو بڑی سخت Kidney Pain شروع ہو گئی۔آخر کار ایک دوست اُٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ہسپتال والوں نے داخلکر لیا اور diagnose یہ ہوا کہ گردے میں پتھری ہے جس کی وجہ سے درد ہو رہی ہے اور کچھ دنوں کے بعد Laser Operation کرنا پڑے گا۔ میںStudentتھا اور بدقسمتی سے insuranceبھی نہیں تھی۔ خیراگلی صبح جب انہوںنے ہسپتال سے فارغ کیا تو لمبا چوڑابل بن چکا تھا۔جب میں کائونٹر پر پہنچا تو میری پریشانی دیکھ کر اس خاتون نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا اورکہا کہ سامنے والے کمرے میں چلا جائوں۔میں اس کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک اُدھیڑ عمر عورت نے آکر بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا اور میرے کاغذات کو دیکھنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد مجھ سے کہا ” Oh I see you are an International Student”  یعنی کہ اواچھا تم ایک بین الاقوامی طالب علم ہو۔ میں نے کہا ہاں  تو اس نے کہا ہاں مجھے پتہ ہے کہ امریکہ میں علاج بہت مہنگا ہے۔تو اچھا میں اس کو قسطوں میں کر دیتی ہوں(یاد رہے کہ میں نے اس بارے میں کوئی demand نہیں کی تھی) میں تھوڑا سا خوش ہوا لیکن ابھی بھی چہرے پر پریشانی دیکھ کر خودہی  بولی’ سو ڈالر مہینے کے حساب سے دے سکوگے۔میں بہت ہی خوش ہوا اور سرہلایا ساتھ ہی بولی او ہو تم تو شادی شدہ بھی ہو اور تمہارے تو اور خرچے بھی ہونگے چلو صرف  پچاس ڈالر مہینے کے حساب سے قسط دے دیا کرو۔اگر یہ بھی نہ دے سکو تو کسی دن ہمارے سوشل سیکوریٹی کے آفس میں آکر application دے دینا تو یہ بھی معاف ہو جائے گا۔

ذرا سوچئے’ غیر ملک میں ایک انٹرنیشنل سٹوڈنٹ کے ساتھ یہ برتائو’ کبھی آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کے ملک میں کسی غیر ملکی کے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے؟ غیر ملکی تو دور کی بات ہے کسی شہری کے ساتھ بھی شاید یہ سلوک نہ ہوسکے۔

تو جناب یہ کیسے ممکن ہے۔اس کی بنیادی وجہ بھی سوشل سیکوریٹی کا وہ نظام ہے جس کے مطابق ہر کوئی اپنی آمدنی کے مطابق ایک خاص حصہ حکومت کو دیتا رہتا ہے اور حکومت وہی پیسہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کرتی ہے۔

اسلامی ممالک میں یہ کام زکوٰة سے کیے جاتے ہیں۔

اور شاید آج اسلامی ممالک میں لوگ زکوٰة بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اخبار میں پڑھا کہ صرف سعودی عرب کے 800ارب ڈالر امریکہ کے بنکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔اگر اس رقم پر 2.5 فیصد کے حساب سے سالانہ زکوٰة دی جائے تو یہ دو ارب ڈالر یعنی کہ تقریباً 120ارب روپے سالانہ بنتے ہیں۔

آپ سوچئے کہ اس کے علاوہ اور کتنے امیر اسلامی ممالک ہیں؟ اگر یہ تمام ممالک صرف زکوٰة ہی دینا شروع کر دیں تو یہ سالانہ کھربوں روپے میں پہنچے گی اور تمام مسلم ممالک میں خوشحالی تو آئے گی ہی ساتھ ہی ان کے قرضے بھی ختم ہو جائیں گے۔

یہودیوں کے بارے میں سوچیں کہ چھوٹی سی آبادی ہے لیکن دنیا میں ہر جگہ چھا گئے ہیں۔امریکہ کا معاشیاتی نظام’ دنیا کا میڈیا’ دنیا کی سیاست اور Banking Sector  غرضیکہ ہر جگہ وہ نمبرایک ہیں۔

ایک بڑی ہی دلچسپ بات جو یہودیوں کے بارے میں پتہ چلی وہ یہ ہے کہ

 ہر یہودی شخص اور ادارہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو اپنی آمدنی کاسالانہ پانچ سے سات فیصد حصہ اپنی گورنمنٹ کے مشترکہ فنڈ میں جمع کرواتا ہے۔

یہ رقم قوم کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کیلئے استعمال ہوتی ہے۔

ایک طرف تو آمدنی کا پانچ سے سات فیصد حصہ گورنمنٹ کے مشترکہ فنڈ میں سالانہ دیا جائے اور دوسری طرف مسلمان شاید اپنی بچت کا 2.5فیصد زکوٰة بھی دینے کو تیار نہیں۔

افسوس ہے ہم کون تھے اور کیا بن گئے۔١٩٨٦ئ سے ١٩٩٠ئتک میں تقریباً چارسال امریکہ میں پڑھائی کیلئے رہا اور ایک بڑی ہی حیران کن بات آپ کو بتائوں کہ ان چار سالوں میں گھر کو کبھی تالہ نہیں لگایا۔ٹھیک ہے بڑے شہروں میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے لیکن مجھے صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ پاکستان کے کسی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے  شہر میں بھی یہ تجربہ کر سکتے ہیں کہ گھر کو تالہ نہ لگائیں اور گھومتے پھرتے رہیں۔

جناب یہ حقائق ہیں۔سچ ناگوار بھی گزرے تو کوئی بات نہیں جانئے تو سہی’ آپ کو یہ علم ہے کہ پوری دنیا میںعیسانیت کیسے پھیلی؟ دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوںکو گلے سے لگا کر اخلاق اور کردار کی وجہ سے پھیلی۔

اسی طرح جیسے کہ کبھی اسلام پھیلا تھا۔

آپ کو ایک مزے کی حقیقت اور سناتا ہوں۔میں جب امریکہ پڑھائی کیلئے گیا تو ایک بہت ہی بڑےSuper Store کی جس کی ہزاروں برانچیں تھیں کا پتہ چلا جس کا نام WAL-MART ہے۔اگرچہ کہ وہ اُس وقت بھی بہت بڑی کمپنی تھی لیکن ابھی دنیا کی 100بڑی کمپنیوں کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔

اس سٹورکی ہر شہر میں کئی کئی برانچیں موجود تھیں اور بہت ہی ترقی کر رہی تھی۔اس سٹور میں روزمر ّہ استعمال کی ہر شے موجود ہوتی ہے۔ کچھ پاکستانی بھائیوں نے بتایا کہ اس سٹور سے خریداری کرنے کا ایک فائدہ ہے کہ آپ اس سٹور سے کچھ بھی خریدیں’ کچھ عرصہ استعمال کر کے بھی اگر آپ کو اس میں کوئی خامی نظر آجائے تو آپ یا تو چیز بدل سکتے ہیں یا اپنے پیسے واپس لے جائیے۔اسی پالیسی کی وجہ سے گاہک پورے اعتماد سے وہاں سے خریداری کرتا ہے۔

اور شاید ضرورت سے زیادہ ہی خریداری کرتا ہے یہ سوچ کرکے اگر نہ پسند آیا یا خرابی ہوئی تو واپس کردوں گا۔

یہ بھی پتہ چلا کہ پاکستانی’انڈین’بنگلہ دیشی’ سری لنکن سٹوڈنٹ اسیسٹور سے مختلف چیزوں کی خریداری کرتے ہیں۔

اور کچھ عرصہ کپڑے یا جوتے یا چیزوں کو استعمال کر کے خود ہی کوئی نقص ڈال کر واپس کر دیتے ہیں اور پیسے واپس لے کر اسی کمپنی کے کسی اور سٹور سے  دوبارہ خریداری کر لیتے ہیں۔

اس طرح سال ہا سال رہنے کے باوجود بھی اُن کا کپڑوں’ جوتوں اور دیگر روزمرہ کی استعمال کی چیزوں پر کوئی خرچہ ہی نہیں ہوتا۔

ایک دفعہ میں نے WAL-MART سٹور کے ایک مینجر سے یہ بات پوچھی تو اُس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا علم ہے لیکن اس طرح کے لوگ صرف دو سے تینفیصد ہیں۔

ساتھ ہی اُس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا پورا علم ہے لیکن اس نقصان کو ہم اپنی ایڈورٹائزنگ سمجھ کر برداشت کرتے ہیں۔میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ تین سے چار  سال جب یہ لوگ یہاں سے خریداری کرتے رہتے ہیں تو طالبِ علم ہونے کے ناطے شاید اُن کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے  وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔اس کے  ساتھ ہی ساتھ اُن کو ہمارے سٹور سے خریداری کرنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو پھر ساری عمر ہمارے سٹوروں سے ہی خریداری کرتے رہتے ہیں۔اور نہ صرف خریداری کرتے ہیں بلکہ وفادار بھی ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ اسی سٹور نے اُن کے بُرے وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا۔

انٹرویو کے بعد میں یہ سوچتا رہا کہ اللہ ہی خیر کرے ان کے حال پر بیچارے بہت ہی بھولے ہیں۔لیکن میں پاکستان واپس آنے کے بعد بھی اس کمپنی کے بارے میں ہر سال مواد اکٹھا کرتا رہا۔ہر سال یہ کمپنی ترقی کرتی رہی اور آخرکار 2001میں یہ کمپنی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔جس کی روزانہ کی سیل ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

تو جناب آپ یہ سوچئے کہ خریدوفروخت کا یہ اصول جو اسلام نے بتایا اُس پر  آج مسلمان تو شاید عمل نہیں کرتا لیکن غیر مسلم اس پر عمل کر کے ترقی ضرور کر رہے ہیں۔

ایک طرف تو یہ مثال ہے دوسری طرف مسلمانوں کے معاشرے میں اگر کسی سٹور پر خریداری کیلئے جائیں تو بڑے بڑے بورڈ لگے نمایاں نظر آتے ہیں کہ خریدے ہوے مال کی کوئی گارنٹی نہیں۔خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔

جبکہ اس بارے میں احادیث ملتی ہیں جس میں نبی کریمۖ نے فرمایا کہ:

”  وہی سودا با رحمت ہے جس میں خریدار اور بیچنے والا دونوں مطمئن ہوں۔خریدار اس چیز سے کہ اس کو اچھے دام میں اچھی چیز مل گئی اور بیچنے والا اس چیز سے کہ اُس کو اپنی مصنوعات کا معقول منافع مل گیا ہے۔  ”

تو جناب مجھے یہ بتائیے کہ آپ بھی اس معاشرے میں چیزیں خرید کر کبھی مطمئن ہوئے ہیں۔

جناب مسلمان کسی چیزکانام تو نہیں’ اعمال کا نام ہے اگر وہ اعمال جو کسی کو مسلمان بناتے ہیں مسلمانوں کے پاس سے نکل کر کسی اور کے پاس چلے جائیں تو آپ اُن کو کیا کہنا پسند کرینگے؟

آج شاید ہی کوئی اسلامی مملکت ہو جس میں آپ کو سچا اسلامی رفاعی ریاست کا نفاذ یا اسلامی معیشت کا نظام نظر آتا ہو۔ایک طرف تو ۔یا تو آمریت ہے یا پھر جھوٹی ڈیموکریسی نظر آتی ہے۔

ایسا کیوں ہے اور ہمارے عالمِ دین ان باتوں پر خاموش کیوں ہیں؟

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اگر میرے جیسے کم دینی علم رکھنے والے شخص کو ان باتوں کا علم ہے تو ان کو نہیں ہو گا۔

یا کہیں یوں تو نہیں کہ وہ یہ بتانا ہی نہیں چاہتے؟

توجناب یہ تھیں وہ چند وجوہات جس کی بنیاد پر لوگوں’معاشروں اور قوموں کو ایک دوسرے پر سبقت ملتی ہے اور یاد رکھیئے کہ یہ قوانینِ قدرت ہیں اور قوانینِ قدرت ان دیواروں کی مانند ہیں جن کے ساتھ سر پٹکتے رہنے سے ہم ان دیواروں کو تونہیں ہلا سکیں گے لیکن اپنا سرضرورزخمی کربیٹھیں گے۔

جیسا کہ سورة الفتح کی آیت ٢٣میں ارشاد ہوا:

” اللہ کے اس قاعدے کے مطابق جو پہلے سے چلا آیا ہے’  تُو کبھی بھی اللہ کے قاعدے کو بدلتا ہوا نہ پائے گا۔ ”       (سورة الفتح : ٢٣)

ان دونوں وجوہات کے علاوہ ایک بہت ہی ضروری بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں اور جس کا کامیابی میں بڑا عمل دخل ہے۔

پہلا اصول تو ٹیم ورک یعنی کہ مل جل کر کام کرنے کا ہے۔اس کو سمجھنے کیلئے وہ بچپن کی لکڑہارے اور اس کے بیٹوں والی کہانی یاد کیجئے کہ ایک دن ایک بوڑھا لکڑ ہارا اپنے بچوں کو مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کا سبق دینے کیلئے سوکھی لکڑیوں کا ایک بنڈل لے کر آگیا۔اُس نے وہ بنڈل اپنے لڑکوں کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ باری باری تمام زور لگائو اور اس بنڈل کو توڑ کر دکھائو۔باری باری سب نے کوشش کی لیکن وہ لکڑیوں کے بنڈل کو توڑ نہ سکے۔

اس کے بعد اُس نے اس بنڈل کو کھول کر لکڑیوں کو علیٰحدہ علیٰحدہ کر دیا اور اپنے بیٹوں کو کہا کہ اب اپنی اکیلی لکڑیوں کو باری باری توڑو۔ تو آسانی سے اُس کے لڑکوں نے ان لکڑیوں کو توڑ ڈالا۔

یہ بچپن کی کہانی شاید سب نے سنی ہوگی۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر سب نے سنی ہے تو پھر مسلمان اس طرح علیٰحدہ علیٰحدہ کیسے ہو گئے اور فرقوں میں بٹتے ہی چلے گئے۔اسی وجہ سے تو آج عالمِ اسلام ریزہ ریزہ ہو رہا ہے اور اُس کے دشمن اس کو توڑے چلے جا رہے ہیں ۔ایک ملک کو دوسرے کی خبر نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی سلطنت اور امارت کے نشہ میں غرق ہے۔بس ہر کسی کی یہی کوشش ہے کہ اس کی سلطنت کو نہ چھیڑا جائے اور باقی ملکوں کے ساتھ جو مرضی سلوک ہو جائے۔

اس فرقہ واریت سے حالات یہاں تک ہو چکے ہیں کہ اگر کسی اسلامی ملک میں بھی کوئی آسمانی آفت یا تباہی آجائے تو مدد غیر مسلم ملکوں سے ہی آتی ہے۔مسلمان تو اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو کھلانے کیلئے بھی تیار نہیں۔

اس لئے شاید قرآن پاک نے خاص طور پر مسلمانوں کو ہدایت کی تھی۔سورة اٰلِ عمران کی آیت١٠٣میں ارشاد ہے:

”  اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔  ”   (اٰلِ عمران  :١٠٣)

اور ایک صحیح حدیث میں بیان ہے۔آنحضرت ۖ نے فرمایا:

”  صحیح ہدایت پہنچ جانے کے بعد کوئی قوم بھی تباہ نہیں ہوئی ماسوائے ان کے جو جھگڑوں میں پڑ گئی۔  ”

تو جناب اگر آج مسلمان قوم کی حالت ابتر ہو چکی ہے تو کیا آپ کے خیال میں اس کی وجہ بھی یہی قرآن و حدیث سے لاپرواہی تو نہیں۔

آج مسلمانوں کی آبادی بڑھتی چلی جارہی ہے اور تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ مسلمان اس دنیا میں بسے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود ان کی تفرقہ بازی کی وجہ سے ان کی اتنی بڑی تعداد بھی کسی قابل نہیں رہی۔

جیسا کہ ایک حدیث میں ملتا ہے کہ نبی پاک  ۖنے قیامت سے پہلے کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ

آج جتنے فرقے آپ کو مسلمانوں میں نظر آتے ہیں اس کے بارے میںترمذی میں روایت ہے کہ نبی پاکۖ نے فرمایا:

”  یہود و نصاریٰ ٧٢ فرقوں میں تقسیم ہونگے اور میری امت ٧٣فرقوں میں تقسیم ہوگی تو یہ سارے فرقے جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے اور وہ نجات پانے والا ایک فرقہ وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ  کے طریقے پر ہوگا(یعنی قرآن اور سنت پر عمل کرنے والا)۔  ”   (سنن ترمذی)

یاد رکھیئے کہ ان ٧٣فرقوں میں سے ٧٢جہنمی ہیں اور ٧٣واں فرقہ اصل میں فرقہ نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا  کوئی فرقہ نہیں اور کسی فرقے کو نہیں مانتے لیکن اس کے باوجود تمام فرقوں کی اچھی باتوں کو اپناتے ہیں۔

اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کیونکہ ہمارے پیارے رسول ۖ نے فرما دیا ہے کہ یہ ہو گا اس لئے اس کو قسمت سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا چاہیئے بلکہ کچھ کرنا چاہیے۔بدقسمتی سے آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ کسی چیز پر بھی متفق نہیں ہوتے۔ہر کوئی اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے دوسرے کو کمزور اور رسوا کرنے اور غلط ٹھہرانے کے چکر میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کمزوری کا فائدہ غیر مسلم اٹھا رہے ہیں۔

اکثر اوقات میرے سیمینارز کے بعد لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیڈرز کو الزام دینا  شروع کر دیتے ہیں۔اس کی وضاحت بھی کرتا چلوں۔بیہقہی میں روایت ہے کہ نبی پاک ۖ نے فرمایا کہ:

”  رعایا جیسی ہوتی ہے اُن کے حکمران بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔  ”   (بیہقی)

تو جناب حکمرانوں کی فکر کرنا چھوڑیئے وہ اپنے کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ خود ہی بھگت لیں گے لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر آپ کو اچھے لیڈر چاہئیں تو اپنے آپ کو بہتر بنائیے۔کردار والے چاہئیں تو اپنا کردار ٹھیک کیجئے’علم والے لیڈر چاہئیں تو اپنے علم کو بلند کیجئے۔

میں تو ہمیشہ یہی بات کرتا ہوں کہ تاریخ پر نظر دوڑائیے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ایک ایک شخص معجزے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جہاں جہاں بھی تبدیلی آتی ہے اُس تبدیلی کا آغاز ہمیشہ ایک شخص سے ہوا ہے۔آپ خود سوچئے کہ حکمران کیوں بدلیں۔یاد رکھیئے کہ تبدیلی کیلئے سب سے زیادہ قربانی حکمرانوں کو ہی دینی پڑتی ہے اس لئے تاریخِ عالم گواہ ہے کہ حکمران تب تک نہیں بدلتے جب تک کہ اُنہیں بدلنا نہ پڑے۔

اپنے آپ کو اتنا مضبوط کر لیجئے کہ آپ کو کوئی Exploit کر ہی نہ سکے۔ یاد رکھیئے کہ جب تک بے وقوف بننے والے موجود ہونگے بے وقوف بنانے والے پیدا ہوتے رہے گے اور جب بے وقوف بننے والے ہی علم کی بنیاد پر عقلمند ہوگئے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کا انتخاب بھی قرآن کے اسی ضابطہ کی بنیاد پر کرینگے کہ لیڈر علم والا ہو اوراچھے اعمال والا ہو۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ اکثر اوقات لیڈروں کے علم کی کیفیت اور اعمال سامنے ہوتے ہیں لیکن اپنا علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اچھے بُرے کو پہچان ہی نہیں کر سکتے۔جیسا کہ میں نے ایک گائوں میں ایک گروپ سے پوچھا کہ کس کو ووٹ دو گے تو انہوں نے ایسے ایک لیڈر کا نام لیا جس کی کرپشن کی داستانیں شاید بچے بچے کو پتہ تھیں اُس کے باوجود وہ اس لیڈرکو ووٹ دینے کیلئے تیار تھے جب میں نے پوچھا کیوں تو جواب کچھ ایسے آئے:

O       اوہنے میرے بندے نوں نوکری دوائی سی

ذرا سوچئے کہ یہ بیچارے کم علم لوگ یہی نہیں جانتے کہ جو شخص اس طرح کے غیر قانونی کام کروائے گا اور نااہلوں کو ملازمت دلوائے گا وہ کیسے اچھا لیڈر بن سکتا ہے۔

بس معیار یہ ہے کہ جو میرے لئے اچھا وہی ملک کیلئے اچھا’ اپنے سے ہٹ کر سوچنے کو کوئی تیار ہی نہیں۔

تو جناب آنکھیں کھولئے اور حقیقت کو دونوں آنکھوں سے دیکھنا شروع کریں۔ٹھیک ہے امریکہ اور یورپ میں بہت سی برائیاں ہونگی۔تو آپ کو کس نے کہا ہے کہ ان کی برائیاں لیں کم از کم ان کی اچھائیاں تو لے سکتے ہیں۔اسی بارے میں ترمذی کی حدیث ملتی ہے کہ نبی پاکۖ نے فرمایا

” علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے سو اسے جہاں سے بھی ملے اس کو لے لے۔”

بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کی برائیاں تو لے لیتے ہیں اچھائیاں اول تو نظر ہی نہیں آتیں اور اگر آتی بھی ہیں تو اس کو لینے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ وہ کافر ہیں۔

 یہ سوچنا چھوڑ دیجئے کہ وہ بغیر کسی چیز کے ہی دنیا میں چھا گئے ہیں۔وہ آپ کے ہتھیار سے’ علم اور اعمال کے ہتھیار سے جو انہوں نے شاید آپ سے ہی سیکھا ہے’ آپ سے آگے نکل گئے ہیں اور یاد رکھئیے کہ جو اچھا انسان ہے’ علم والا ہے وہی اچھا مسلمان بھی بن سکتا ہے۔ایک جاہل مسلمان جس کے نہ آداب ہوں اور نہ ہی علم ہو’وہ تو مسلمان کو بدنام ہی کرے گا۔

متفق علیہ حدیث ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:

”  ایسے لوگ جو اسلام سے قبل سب سے اچھے تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی سب سے اچھے ہیں اگر دینی علوم کو بخوبی سمجھ جائیں۔  ”  (متفق علیہ)

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علم صرف دین کا ہی نہیں ہے اور یہ کہ اسلام سے پہلے بھی کچھ لوگ civilizedتھے اور جو لوگ اچھے تھے وہ جب اسلام قبول کر گئے تو وہ باقی لوگوں کی نسبت (جو کہ کم پڑھے لکھے یا جاہل تھے اور مسلمان ہوگئے تھے) وہ اُن سے بہتر بن گئے۔

سوچئے کہ حمزہ یوسف اور مراد ہاف مین جیسے لوگ جب اسلام میں داخل ہوئے تو وہ جو کام کر رہے ہیں وہ تو بڑے بڑے پیدائشی مسلمان نہیں کر سکے۔

یہ حقیقت بھی اس حدیث کو ثابت کرتی ہے کہ اچھے اعمال کے بغیر تو مسلمان کسی کام کا نہیں بلکہ وہ تو مسلمان کو بدنام ہی کرے گا۔

یاد رکھیئے کہ سچ ایک ہی ہے دونہیں ہو سکتے۔امریکہ اور یورپ کے لوگ اپنے علم کی بنیاد پر جو سچ اور حقائق تلاش کر رہے ہیں۔وہ وہی ہیں جو کہ اسلام نے 1400 سال پہلے بتائے تھے۔فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو Ready made سب کچھ مل گیا اور اُن لوگوں نے محنت’ مشقت اور بڑی قربانیوں کے بعد وہ سیکھنا شروع کر دیا ہے جو کہ سچ ہے اور اسی بنیاد پر وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔

جب جب مسلمان قومیں توڑ پھوڑ’ آگ لگانا اور گالی گلوچ کر کے امریکہ اور یورپ کو بُرا بنانے کی کوشش کرتی ہیں تو یہی کچھ مسلمان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو دیکھو یہ مسلمان قوم کتنی جاہل ہے’کتنی شدت پسند ہے’ کتنی بے وقوف ہے کہ اپنے ہی ملک کا نقصان کر رہی ہے۔

سن ٢٠٠١ئ میں مجھے اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA)کے سالانہ اجتماع میں جانے کا اتفاق ہوا جو کہ الی نوائی سٹیٹ کے  ایک خوبصورت سے شہرروزمونٹ میں ہوا۔

پوری دنیا سے تقریباً 35,000مسلمانوں نے اس اجتماع میں شرکت کی۔تین دن کے اس اجتماع میں شرکت کیلئے آئے ہوئے مہمانوں میں بچے’ بچیاں’ عورتیں’ بوڑھے’ جوان اور ہر قوم کے لوگ شامل تھے۔ان لوگوں کے آداب اور برتائو کو بیان کرنا مشکل ہے۔تین دنوں میں ایک چھوٹی سی جگہ میں جہاں 35,000لوگ جمع ہوں کسی نے کہنی نہیں ماری’ باتھ روم گندے نہیں ہوئے’ پانی کا کیچڑ نہیں بنا۔ جوتوں کے اوپر جوتے نہیں مارے گئے۔دھکم پیل نہیں ہوئی۔کسی نے کسی بچی کو نہیں چھیڑا’ کہیں سگریٹ یا ماچس کے ٹکرے یا کھانے پینے کی چیزوں کے ڈبے سڑکوں پر گرے نظر نہیں آئے۔کوئی گاڑی غلط جگہ پر پارکنگ میں نہیں دیکھی گئی۔ ان مسلمانوں کا حسنِ سلوک’ آداب’  برتائو’ کردار اور صفائی اور نظم و ضبط کا مظاہرہ دیکھ کر غیر مسلم بھی ان مسلمانوں کی تعریف کیے بغیر رہ نہ سکے۔

تو جناب اب آپ خود سوچئے کہ یہ ہیں مسلمان۔اس طرح ہونا چاہیئے مسلمان کو’  جہاں جائے اپنے کردار’ اعمال اور آداب کی وجہ سے ایک نقش چھوڑ دے اور لوگ یاد ہی کرتے رہیں۔ایسے اسلام پھیلا تھا۔سختی اور جبر سے نہیں پھیلا تھا۔آپ چاہے جو مرضی کہتے رہیں کہ مسلمان ایسے نہیں ویسے ہیں لوگ تو وہی مانیں گے جیسے کہ وہ دیکھیں گے۔اب اُن مسلمانوں اور باقی مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔میرے خیال میں صرف علم کا فرق ہے۔ وہ مسلمان اپنی مرضی سے مسلمان ہیں اور باقی شاید صرف اس لئے مسلمان ہیں کیونکہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔زیادہ تر نے تو شاید ہوش و حواس میں کلمہ بھی نہیں پڑا ہوگا۔اکثر اوقات جو گدا گر یا بھکاری مانگنے کیلئے آتے ہیں میں ان کی حالت دیکھ کر انہیں کچھ صدقہ خیرات دینے سے پہلے اُن کا اسلامی علم دیکھنے کیلئے ان سے ایک دو سوال ضرور کرتا ہوں۔میں نے آج تک  سڑک پر بھیک مانگتا ہوا کوئی بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے قرآن پڑھا بھی ہو سمجھنا تو کجا۔

تو جناب ا س بات کا جواب دیجئے کہ کیا اسلام میں بُرائی ہے یا مسلمان میں۔

جتنی کوشش ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے کرتے ہیں اگر اتنی کوشش اپنی اصلاح میں لگا لیں تو شاید ہماری زندگی بدل جائے گی۔کاش ہم دنیا کو یہ بتانے کی بجائے کہ ہم سب سے بہتر ہیں پہلے سب سے بہتر بننے کی کوشش کریں تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔کامیابی تو خود ہی سب کو کھینچے چلی آتی ہے اتنی بڑی عالم اسلام ہے کوئی ایک ملک یا ایک معاشرہ تو مثالی اسلامی معاشرہ بنا دیجئے تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ اسلامی معاشرہ ایسا ہوتا ہے۔بھائی سیدھی سی بات ہے اُس اُستاد سے کون پڑھنا چاہے گا جس کی اپنی زندگی ہی تباہ ہو۔صاف ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کہ مسلمان دوسروں کو حق بات کی تلقین کریں پہلے اُنھیں اس بات پر عمل کرنے کے فائدے تو دکھانے پڑیں گے۔

مجھے تو یہی لگتا ہے کہ آج کل مسلمان کو بدنام کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں۔اسلام کو جانیئے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اسلام مکمل دین ہے اور ساری بُرائیاں مسلمان کی جہالت کی وجہ سے ہیں۔کمی اسلام میں نہیں’ مسلمان میں ہے۔

تو جناب مسلمان ہونا یا ایمان لانا تو ایسے ہی ہے جیسے کہ ابھی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہو۔داخلہ کے بعد اب یونیورسٹی بھی جانا پڑے گا۔کتابیں بھی پڑھنا پڑیں گی۔امتحان بھی دینے پڑیں گے’  assignments بھی کرنی پڑیں گی۔اور تمام کورسوں میں پاس ہونے کے بعد پھر ڈگری ملے گی۔اور یہ مسلمان قوم صرف یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ہی خوش ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔

اب باتیں کرنے کا وقت نہیں کام کرنے کا وقت ہے۔

تو جناب اب اجازت دیجئے اور جگر مراد آبادی کے اس شعر پر غور کیجئے۔

چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی

چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی

(سکندر جگر مراد آبادی)