Transcription of Faiez Seyal’s Urdu best-seller Audio Program “Badlain Gai” from 1995
السلام علیکم!
اس مضمون کے عنوان سے آپ لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اس آڈیوپروگرام میں ایسا کونسا پیغام ہے جو آپ لوگوں کی زندگی بدل دے گا۔اس پیغام کوسننے کیلئے صرف چند لمحے اور انتظار کر لیجئے۔ان چند لمحوں میں’میں آپ کو اس موضوع پر وضاحت تک پہنچنے کے سفر کی مختصر سی داستان بتاتا چلوں۔ میںپیشے سے بزنس ٹرینر اور کنسلٹنٹ ہوں لیکن چونکہ میرا پس منظر’رویوں کی سائنس یعنی کہBehavioral Sciences میں بھی ہے اس لئے بطورِ مشغلہ میں marriage اور Career Counselling بھی کرتا رہا۔اس اثناء میں مجھے ہزاروں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔جس میں teenagers’middle ageاور معزز شہری مرد اورعورتیں دونوں شامل تھے۔اس میں studentsبھی شامل تھے’گھریلو خواتین بھی’ ریٹائرڈ لوگ بھی’ Business Managers بھی’مینجرز’بزنس مین’ڈاکٹرز’انجینئرز’سروس مین گو ہر پروفیشن کے لوگ تھے۔اس کے علاوہ ان لوگوں میں ہر سماجی طبقے کے لوگ یعنی مزدور طبقے سے لے کر upper classکے لوگوں تک شامل تھے۔مجھے ان میں پچانوے فیصد لوگ ناخوش نظر آئے۔کسی نہ کسی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں تھے۔ایک انگلش کہاوت ہے:
اس مضمون کے عنوان سے آپ لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اس آڈیوپروگرام میں ایسا کونسا پیغام ہے جو آپ لوگوں کی زندگی بدل دے گا۔اس پیغام کوسننے کیلئے صرف چند لمحے اور انتظار کر لیجئے۔ان چند لمحوں میں’میں آپ کو اس موضوع پر وضاحت تک پہنچنے کے سفر کی مختصر سی داستان بتاتا چلوں۔ میںپیشے سے بزنس ٹرینر اور کنسلٹنٹ ہوں لیکن چونکہ میرا پس منظر’رویوں کی سائنس یعنی کہBehavioral Sciences میں بھی ہے اس لئے بطورِ مشغلہ میں marriage اور Career Counselling بھی کرتا رہا۔اس اثناء میں مجھے ہزاروں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔جس میں teenagers’middle ageاور معزز شہری مرد اورعورتیں دونوں شامل تھے۔اس میں studentsبھی شامل تھے’گھریلو خواتین بھی’ ریٹائرڈ لوگ بھی’ Business Managers بھی’مینجرز’بزنس مین’ڈاکٹرز’انجینئرز’سروس مین گو ہر پروفیشن کے لوگ تھے۔اس کے علاوہ ان لوگوں میں ہر سماجی طبقے کے لوگ یعنی مزدور طبقے سے لے کر upper classکے لوگوں تک شامل تھے۔مجھے ان میں پچانوے فیصد لوگ ناخوش نظر آئے۔کسی نہ کسی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں تھے۔ایک انگلش کہاوت ہے:
“Youth is a blunder, Manhood is a struggle and old age is a regret.”
بس کچھ ایسا ہی نظر آیا۔جو لوگ ناخوش تھے ان میں کچھcommon traits نظر آئے جیسے غصّہ’نفرتیں’الزامات’شکایتیں’self pity’ بیماری’ موٹاپا’ڈیپریشن’بے سکونی’ذہنی تنائوایسے لوگ جو ہر بات میں اور ہر چیز میں بُرائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔یہ لوگ بہت ہی شکی مزاج اور وہمی بھی نظر آئے۔یہ لوگوں پر اعتماد بھی کم کرتے ہیں اور Extreme حد پر تو گالی گلوچ سے بھی نہیں کتراتے۔یہ لوگ اپنی ساری problemsکا قصور وار زمانے کو ٹھہراتے ہیں۔ان کو یہ بھی کہتے سُنا کہ لوگ بدل گئے ہیں’جی آج کل تو زمانے میں خلوص ہی ختم ہو گیاہے’پیار ہی نہیں رہا’رشتے ہی وہ نہیں رہے’ہماری values اور اقدار بدل گئی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں ہر کچھ بدلنا’اِن کے نزدیک سب کچھ غلط ہے۔گورنمنٹ غلط ہے’تعلیمی نظام بھی غلط ہے’texation سسٹم بھی غلط ہے۔بس جو کچھ وہ کرتے ہیں یا جو وہ ہیں ‘بس وہی ٹھیک ہے۔یہ لوگ سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں ماسوائے اپنے آپ کو۔ اور اپنے آپ کو کبھی غلط نہیں کہتے۔آپ بھی ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہوں گے اپنے گھر میں’ محلہ میں یارشتے داروں میں یا پھر آفس میں آپ کو ایسے لوگ ہر جگہ ملتے ہیں۔شہر میں کسی بیماری کی وبا پھیلی ہو تو یہ لوگ سب سے پہلے اس کے شکنجے میں آتے ہیں۔ساری کی ساری چیزیں تو نہیں نظر آتیں لیکن انہی چیزوں کے کچھ نہ کچھ combinations نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف پانچ فیصد لوگ جو مجھے زندگی میں خوش نظر آئے وہ ہر حال میں خوش نظر آئے۔آپ نے بھی ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے۔ان میں پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے’پیسے والے اور کم پیسے والے’ملازمت پیشہ اور بزنس مین ہر عمر کے مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔یہ دیکھ کر میں نے اِن سوالوں کے جوابات تلاش کرنا شروع کئے کہ
نمبر1۔ ایسی کون سی وجوہات ہیں جن سے لوگوں کی زندگی میں اتنے مسائل ہیں اور
نمبر 2۔ ایسی کونسی عادتیں یا سٹائل ہے جس سے لوگوں میں خوشی اور سکون آتا ہو۔ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کیلئے پچھلے چھ سالوں سے میں ریسرچ کرتا رہا اور پوری دنیا میں ہزاروں لوگوں سے ملا۔١٩٩٥ئمیں مجھے آخر یہ لگنے لگا کہ مجھے اپنے سوالوں کے جوابات مل گئے ہیں اور ١٩٩٦ئسے میں اپنے علم اور تجربات کو لوگوں تک اپنے سیمینارز کی شکل میں پورے پاکستان میں بڑے شہروں میں کروا کر اب تک تقریباًپچیس ہزارلوگوں تک پہنچا چکا ہوں۔اُن لوگوں کی زندگیوں میں اتنی تبدیلیاں آئیں اور انہوں نے خواہش کی کہ ہمیں اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانا چاہیے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ پروگرام صرف لوگوں کی انفرادی زندگی کو ہی نہیں بدلے گا بلکہ ہمارے گھروں’معاشرے اور ملک میں جو بے سکونی ہے اس کا بھی یہی علاج ہے۔جب معاشرے کے لوگوں میں ہی inner peace نہیں ہوگا تو معاشرے میں سکون ہو ہی نہیں سکتا۔جیسے کسی نے کیا صحیح کہا ہے:
دوسری طرف پانچ فیصد لوگ جو مجھے زندگی میں خوش نظر آئے وہ ہر حال میں خوش نظر آئے۔آپ نے بھی ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے۔ان میں پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے’پیسے والے اور کم پیسے والے’ملازمت پیشہ اور بزنس مین ہر عمر کے مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔یہ دیکھ کر میں نے اِن سوالوں کے جوابات تلاش کرنا شروع کئے کہ
نمبر1۔ ایسی کون سی وجوہات ہیں جن سے لوگوں کی زندگی میں اتنے مسائل ہیں اور
نمبر 2۔ ایسی کونسی عادتیں یا سٹائل ہے جس سے لوگوں میں خوشی اور سکون آتا ہو۔ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کیلئے پچھلے چھ سالوں سے میں ریسرچ کرتا رہا اور پوری دنیا میں ہزاروں لوگوں سے ملا۔١٩٩٥ئمیں مجھے آخر یہ لگنے لگا کہ مجھے اپنے سوالوں کے جوابات مل گئے ہیں اور ١٩٩٦ئسے میں اپنے علم اور تجربات کو لوگوں تک اپنے سیمینارز کی شکل میں پورے پاکستان میں بڑے شہروں میں کروا کر اب تک تقریباًپچیس ہزارلوگوں تک پہنچا چکا ہوں۔اُن لوگوں کی زندگیوں میں اتنی تبدیلیاں آئیں اور انہوں نے خواہش کی کہ ہمیں اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانا چاہیے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ پروگرام صرف لوگوں کی انفرادی زندگی کو ہی نہیں بدلے گا بلکہ ہمارے گھروں’معاشرے اور ملک میں جو بے سکونی ہے اس کا بھی یہی علاج ہے۔جب معاشرے کے لوگوں میں ہی inner peace نہیں ہوگا تو معاشرے میں سکون ہو ہی نہیں سکتا۔جیسے کسی نے کیا صحیح کہا ہے:
“Outward corruption comes from the corruption of inward. If you put your inner being in order, God will put the outward in order.”
روحانی’مذہبی لیڈر اور فلاسفرconfuciousنے کہا:
“To put the world in order, we must put the nation in order. To put the nation in order, we must put the family in order. To put the family in order, we must cultivate our personal lives, and to cultivate our personal lives, we must set our hearts right.”
اس آڈیوپروگرام سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کیلئے صرف ایک ہی گزارش ہے۔جیسے آپ اپنے کپ میں نئی چاہے ڈالنے سے پہلے پرانی چاہے کو پھینک دیتے ہیں۔اسی طرح سے آپ کا دماغ بھی ایک کپ کی مانند ہے جس میں آپ نے زمانے سے’لوگوں سے’ماحول سے اور اپنے تجربات سے جو کچھ سوچا ہے اور جو سیکھا ہے وہ store ہوا ہوا ہے۔آپ کے جتنے بھی قابلِ قدر تجربات ہیں میں اُن کو discourage تو نہیں کر رہا نہ ہی اُن کو underestimate کر رہا ہوں۔صرف کچھ دیرکیلئے اپنے ان تجربات کو ایک طرف رکھ دیجئے۔آپ کے جو بھی Beliefs ہیں اگر آپ کو اس آڈیوپروگرام کے سننے کے بعد بھی یہ لگا کہ اس پیغام میں سچائی نہیں ہے اور یہ آپ کے دل کی آواز نہیں ہے تو آپ اس آڈیوپروگرام کے اختتام پر اپنی پرانی learnings کو اپنے ساتھ لے کر جاسکتے ہیں۔لیکن میں آپ کو صرف یہ یقین دلاسکتا ہوں کہ اگر آپ نے کھلے دماغ سے اس آڈیوپروگرام کو سن لیا تو یہ آپ کی زندگی بدلنے کیلئے کافی ہوگا۔
جن لوگوں کی زندگی میں سکون اور خوشی نظر آئی اُن تمام لوگوں میں کچھ مشترک چیزیں بھی نظر آئیں۔ایک تو یہ ہے کہ وہ تمام کے تمام لوگ سماجی کام پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اوسطاً سات سے آٹھ گھنٹے ہر ہفتے میں social work کرتے ہیں۔اب اس social work میں کچھ لوگ بوڑھے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں’کچھ کینسریا aids کے مریضوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آئے’کچھ لوگ fountain house میں mentally retarted لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ لوگ تو adult education یا تو غریبوں کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے نظر آئے’کچھ کا شوق ماحولیات میں اور کچھ مذہبی تعلیمات پر کام کرتے ہوئے نظر آئے۔گو ہر کوئی خدمتِ خلق کے تحت کچھ نہ کچھ کام کرتا ہوا نظر آیا۔آپ کو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔
امریکہ میں کیلیفورنیا کے ساحل پر پچھلے دس سالوں سے ایک شخص روز پانچ بجے سے لے کر سات بجے تک آتا ہے۔شام کے وقت امریکہ کے ساحل پہ starfish جو ایک مچھلی نما قسم ہے لاکھوں کی تعداد میں آتی ہیں۔اگر اُن کو پانی میں دوبارہ نہ پہنچایا جائے تو وہ مر جائیں گی۔پچھلے پندرہ سالوں سے لگاتار وہ شخص پانچ بجے سے سات بجے کے دوران ایک ایکStarfish کو پانی میں دوبارہ پھینکتا رہتا ہے۔کسی نے اُس سے یہ پوچھا کہ بھائی دنیا میں کتنے ساحل ہیں اور ہر ساحل پر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں Starfish آتی ہیں تم کس کس کو بچائو گے اور اگر تم نے کچھ کو واپس پانی میں پھینک بھی دیا تو کتنوں کی زندگی بدلے گی تو آخر ایک Starfishکو واپس پانی میں پھینکتے پھینکتے اُس نے جواب دیا کہ آخر میں نے ایک کی زندگی تو بدل دی۔بھائی اس طریقے سے ہم سب بہت کچھ تو نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم سب کچھ نہ کچھ بھی کرنا شروع کر دیں تو ہم کافی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لے کر آ سکتے ہیں۔ایک اور واقعہ بھی سناتا ہوں:
ایک سکول کا teenage بچہ سکول میں چھٹی ہونے کے بعد اپنا سامان کتابیں اُٹھائے بہت ہی افسردہ اپنے گھر پیدل چلتا ہوا جا رہا تھا۔وہ بہت ہی پریشان لگ رہا تھا۔اُس کے ہاتھ سے چیزیں گر رہی تھیں۔ایک اور بچہ جو اُسی کے سکول کا تھا اس نے اس کو ایسے پریشانی میں جاتے ہوئے دیکھا تو بھاگتا ہوا اس کے پاس گیا۔اس کی چیزیں’کچھ اُس کا Burden اُٹھا کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔باتوں ہی باتوں میں ایک نے دوسرے کا نام پوچھا اور وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔تھوڑے ہی عرصے میں اس لڑکے کا گھر آگیا۔خدا حافظ کہہ کے وہ لڑکا واپس گھر چلا آیا اور اس دن سے اُن کی دوستی دن بدن گہری ہوتی چلی گئی۔پندرہ سال کے بعد وہ دونوں دوست ایک جگہ بیٹھے چائے پی رہے تھے تو پہلے نے کہا تمہیں یہ پتہ ہے کہ میری زندگی تمہاری وجہ سے ہے۔اس نے کہا یہ تم کیسے کہہ رہے ہو۔اس نے کہا تم نے میری ایک دفعہ جان بچائی اس نے کہا مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے تمہاری جان بچائی ہے۔اس نے کہا وہ دن یاد کرو جس دن ہم پہلی دفعہ ملے تھے۔اس نے کہا مجھے وہ دن یاد ہے۔اس نے کہا اس دن میں اس دنیا سے اتنا زیادہ تنگ تھا اور میرا یہ Beliefبن چکاتھا کہ اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں۔ماں باپ میرے ہیں نہیں اور میں یہی سوچتا کہ میرے رہنے یا نہ رہنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور مجھے اس دنیا پر پیار کرنے والا کوئی نہیں۔لیکن جس طرح تم نے اُس دن بغیر جانتے ہوئے مجھے پیار دیا اور میری اور تمہاری دوستی ہوگئی’ میرا beliefتبدیل ہو گیا اور اس دن میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ جس ارادے سے میں سکول سے نکلا تھا وہ چھوڑ دیا۔تو اس طرح یہ میری زندگی تمہی نے تو بچائی ہے۔
My Dear یہ ایک اور واقعہ ہے۔جس سے آپ کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ service attitude کیا ہوتا ہے۔مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی سے پوچھیں کہ انہیں دنیا میں کس چیز کی کمی ہے۔اُن سے پوچھیئے کہ وہ جو کام کرتے ہیں اُنہیں اُن سے کیا ملتا ہے’کتنا سکون’کتنا پیار اور کتنی راحت ہے ان کی زندگی میں۔میں یہ تو آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ سب کچھ چھوڑ دیں اور مدر ٹریسا اور عبد الستار ایدھی کی طرح اپنی زندگی ہی قربان کر دیں ان کاموں کیلئے۔لیکن بھائی کچھ نہ کچھ تو کیجئے۔آج ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ service attitudeہماری قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔یہ قوتِ مدافعت وہی تو ہے جو ہمارے جسم میں خداکی طرف سے باہر کی بیماریوں کے خلاف fight کرتی ہے اور اگر کسی شخص کی قوتِ مدافعت کم ہو گی تو کیا ہوگا جی ہاں’اُس کو یہ بیماری جلد لگے گی۔
اسکے علاوہ ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ جو لوگ خدمت خلق کے جذبے سے جیتے ہیں خدمتِ خلق کی وجہ سے اُن کا کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے جوکہ دل کی تمام بیماریوں کی نمبر 1وجہ ہے۔نہ صرف یہ بلکہ service attitude سے جینے والوں کو chest painبھی نہیں ہوتی۔خدمت خلق کا جذبہ آپ کے stress level کو بھی کم کر دیتا ہے اور آپ کے دلوں میں جو تنہائی اور خالی پن کے احساسات ہوتے ہیں۔اُس کا بھی یہی علاج ہے۔نہ صرف یہ بلکہ ریسرچ نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ چار سے چھ گھنٹے social work کرتے ہیں اُن کی زندگی چھ سے آٹھ سال بڑھ جاتی ہے۔؟آئیے لاہور کے ایک SOS Village کا ایک واقعہ سناتا ہوں:
چند ہی ہفتے پہلے میری بیوی کو SOS Village جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر اس کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو SOS Village میں ہی پلی بڑھی ہے۔اب اس کی شادی کی عمر ہے اور وہ بہت ہی خوش تھی کہ کچھ ہی عرصے میں اس کی شادی ہونے والی ہے ۔جس لڑکے سے اُس کی شادی ہو رہی ہے وہ بھی SOS Village میں ہی پلا بڑھا ہے اور وہاں سے ہی ترقی کرتے ہوئے آج کل ریاض میں ایک انجینئرکی جاب کر رہا ہے۔تو وہ لڑکی بہت ہی خوش تھی۔میری بیوی نے اس سے پوچھا اب تم ریاض چلی جائو گی’تمہارے پاس پیسے بھی ہوں گے تو اب زندگی کا کیا ارادہ ہے۔اس نے آگے سے یہ کہا کہ مجھے (B.A)اور کمپیوٹر کورس کرنے کا بہت شوق ہے۔میں یہی کروں گی۔ میری بیوی نے کہا میں یہ نہیں پوچھ رہی کہ تم کیا کروں گی میں تو صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ زندگی گزارنے کا کچھ اور بھی سوچا یا نہیں تو اس نے کہا نہیں میں نے نہیں سوچا’تو میری بیوی نے کہا میں تمہیں سمجھاتی ہوں۔تم سوچو اس بات کو کہ اگر تمھیں SOS Villageمیں پناہ نہ ملتی تو آج تم یہاں ہوتی؟اس نے کہا یہ تو پہلے میں نے کبھی نہیں سوچا اس نے پھر کہا کہ جیسے ابھی تم نے کہا کہ تمہاری شادی ایک sponsor کے ذریعے ہو رہی ہے اگر وہ sponsorتمہیں sponsor نہ کرتا تو تمہاری شادی نہ ہو سکتی۔اُس نے کہا یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔تو اس نے کہا کہ جب تمہارے پاس خداکی طرف سے سب کچھ ہو گا تو کیا تم کسی کی سپانسر بننے کی کوشش نہیں کروگی۔تو اس نے کہا آج سے پہلے میں نے یہ بات کبھی نہیں سوچی۔اب point صرف یہ ہے کہ ہم لوگ ایسی باتیں اپنے لئے تو پسند کرتے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کسی اور کو بھی ہماری ضرورت ہو سکتی ہے۔ایک اور واقعہ سنیے:
ایک شخص کو بیالیس سال کی عمر میں یہ پتہ چلا کہ اس کو terminal cancer ہے۔پہلے تو کچھ مہینے وہ اس پریشانی میں ہی گھربیٹھا رہاکہ ہائے اب زندگی ختم ہو جائے گی اور اس پریشایی میں وہ اور بیمار ہونا شروع ہو گیا۔اچانک ایک دن کسی دوست کا گزر ہوا تو اس نے اس کی حالت دیکھ کے یہ کہا کہ زندگی کا تو پتہ نہیں لیکن تم کیا یہ نہیں سمجھتے کہ تمہاری زندگی کا کچھ اور بھی استعمال ہو سکتا ہے۔اس نے کہا مثلاً’اس نے کہا تم ایسا کام ہی کیوں نہیں کر جاتے کہ لوگ تمہیں ہمیشہ کیلئے یاد رکھیں۔وہ سوچتا رہا اور آخر کار اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ کیونکہ وہ خود کینسر کا مریض ہے اور وہ خود بہت ہی تنہا محسوس کرتا ہے اور یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ شاید اس کے پاس کچھ اور لوگ ہوتے تو وہ اُن سے بات کرتا تو اس نے یہ سوچا کہ میں بھی کینسر ہاسپٹلز میں کینسر کے مریضوں کے ساتھ ہی کام کروں گا۔صبح ہوئی تو اس نے ٹیلیفون گھمانے شروع کئے کینسر ہاسپٹلز میں اور آخر کار اس نے ایک کینسر ہاسپٹل میں بطورِ رضاکار جاب شروع کر دی۔وہ سارا سارا دن کینسر کے مریضوں کے ساتھ باتیں کرتا’اُن کے کپڑے بدلواتا۔اُنہیں کھانا کھلاتا اور بس اسی طرح شام ہو جاتی۔ پہلے ہی ہفتے کے اختتام سے پہلے اسے اپنے جسم میں کچھ تبدیلیاںمحسوس ہونے لگیں۔وہ بہت excitedہوا۔ڈاکٹر سے جاکے بات کی اور آخرکار اپناcheckup کروایا تو یہ پتہ چلاکہ اس کے کینسر کا زخم رک گیا ہے اور مزید grow نہیں ہو رہا۔اس کی خوشی بہت ہی بڑھ گئی اور اس نے یہ سوچا کہ اگر چھ گھنٹے کام کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا ہے تو اگر میں زیادہ کروں تو کیا ہوگا۔اگلے ہفتے سے اس نے سارا دن دس دس گھنٹے کینسر کے مریضوں کے ساتھ گزارنا شروع کیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے کسی کینسر کے مریض کو یہ نہیں بتایا کہ وہ خود بھی کینسر کا مریض ہے۔ایک مہینے کے اندر جب اُسکا دوبارہ چیک اپ ہوا تو ڈاکٹرز نے یہ بتایا کہ اس کے کینسر کے زخم آگے بڑھنا تو دور کی بات بلکہ ٹھیک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بس اس کو اس چیز سے اتنا زیادہ حوصلہ ہوا اور وہ خدا کے آگے سجدے میں پڑ گیا او ر اس نے ساتھ ساتھ meditation بھی شروع کر دی۔
بھائی بات یہ ہے کہ دو مہینے کے اندر اندر اتنی بڑی تبدیلی آگئی۔اس کا جواب آپ خود ڈھونڈ لیجئے کہ دو مہینے کے اندر ہی اس کے کینسر کی جتنی بھی علامات تھیں وہ رک گئیں اور چھ مہینے کے اندر ہی اس کا کینسر ٹھیک ہو گیا۔ڈاکٹروں کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ یہ کیا ہوا۔کچھ لوگ اس کو معجزہ کہتے ہیں’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے اُس کو کسی چیز کا صلہ دیا’کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاید اسے کسی کینسر کے مریض کی دُعا لگ گئی۔اب میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتا ہوں کہ اُسے کیا ہوا۔
ریٹائرڈ لوگوں کو دیکھ کے خصوصاً گھریلوخواتین کو دیکھ کے جوگھروں میں سارا سارا دن وقت گزارتی ہیں مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔میرا اپنا ایک تجربہ ہے کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پر سارا دن گزارتے ہیں یا وہ گھریلو خواتین جن کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں اُن کی صحت بگڑنے لگ پڑتی ہے۔میرا تو یہ ایمان ہے:
جن لوگوں کی زندگی میں سکون اور خوشی نظر آئی اُن تمام لوگوں میں کچھ مشترک چیزیں بھی نظر آئیں۔ایک تو یہ ہے کہ وہ تمام کے تمام لوگ سماجی کام پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اوسطاً سات سے آٹھ گھنٹے ہر ہفتے میں social work کرتے ہیں۔اب اس social work میں کچھ لوگ بوڑھے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں’کچھ کینسریا aids کے مریضوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آئے’کچھ لوگ fountain house میں mentally retarted لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ لوگ تو adult education یا تو غریبوں کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے نظر آئے’کچھ کا شوق ماحولیات میں اور کچھ مذہبی تعلیمات پر کام کرتے ہوئے نظر آئے۔گو ہر کوئی خدمتِ خلق کے تحت کچھ نہ کچھ کام کرتا ہوا نظر آیا۔آپ کو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔
امریکہ میں کیلیفورنیا کے ساحل پر پچھلے دس سالوں سے ایک شخص روز پانچ بجے سے لے کر سات بجے تک آتا ہے۔شام کے وقت امریکہ کے ساحل پہ starfish جو ایک مچھلی نما قسم ہے لاکھوں کی تعداد میں آتی ہیں۔اگر اُن کو پانی میں دوبارہ نہ پہنچایا جائے تو وہ مر جائیں گی۔پچھلے پندرہ سالوں سے لگاتار وہ شخص پانچ بجے سے سات بجے کے دوران ایک ایکStarfish کو پانی میں دوبارہ پھینکتا رہتا ہے۔کسی نے اُس سے یہ پوچھا کہ بھائی دنیا میں کتنے ساحل ہیں اور ہر ساحل پر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں Starfish آتی ہیں تم کس کس کو بچائو گے اور اگر تم نے کچھ کو واپس پانی میں پھینک بھی دیا تو کتنوں کی زندگی بدلے گی تو آخر ایک Starfishکو واپس پانی میں پھینکتے پھینکتے اُس نے جواب دیا کہ آخر میں نے ایک کی زندگی تو بدل دی۔بھائی اس طریقے سے ہم سب بہت کچھ تو نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم سب کچھ نہ کچھ بھی کرنا شروع کر دیں تو ہم کافی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لے کر آ سکتے ہیں۔ایک اور واقعہ بھی سناتا ہوں:
ایک سکول کا teenage بچہ سکول میں چھٹی ہونے کے بعد اپنا سامان کتابیں اُٹھائے بہت ہی افسردہ اپنے گھر پیدل چلتا ہوا جا رہا تھا۔وہ بہت ہی پریشان لگ رہا تھا۔اُس کے ہاتھ سے چیزیں گر رہی تھیں۔ایک اور بچہ جو اُسی کے سکول کا تھا اس نے اس کو ایسے پریشانی میں جاتے ہوئے دیکھا تو بھاگتا ہوا اس کے پاس گیا۔اس کی چیزیں’کچھ اُس کا Burden اُٹھا کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔باتوں ہی باتوں میں ایک نے دوسرے کا نام پوچھا اور وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔تھوڑے ہی عرصے میں اس لڑکے کا گھر آگیا۔خدا حافظ کہہ کے وہ لڑکا واپس گھر چلا آیا اور اس دن سے اُن کی دوستی دن بدن گہری ہوتی چلی گئی۔پندرہ سال کے بعد وہ دونوں دوست ایک جگہ بیٹھے چائے پی رہے تھے تو پہلے نے کہا تمہیں یہ پتہ ہے کہ میری زندگی تمہاری وجہ سے ہے۔اس نے کہا یہ تم کیسے کہہ رہے ہو۔اس نے کہا تم نے میری ایک دفعہ جان بچائی اس نے کہا مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے تمہاری جان بچائی ہے۔اس نے کہا وہ دن یاد کرو جس دن ہم پہلی دفعہ ملے تھے۔اس نے کہا مجھے وہ دن یاد ہے۔اس نے کہا اس دن میں اس دنیا سے اتنا زیادہ تنگ تھا اور میرا یہ Beliefبن چکاتھا کہ اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں۔ماں باپ میرے ہیں نہیں اور میں یہی سوچتا کہ میرے رہنے یا نہ رہنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور مجھے اس دنیا پر پیار کرنے والا کوئی نہیں۔لیکن جس طرح تم نے اُس دن بغیر جانتے ہوئے مجھے پیار دیا اور میری اور تمہاری دوستی ہوگئی’ میرا beliefتبدیل ہو گیا اور اس دن میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ جس ارادے سے میں سکول سے نکلا تھا وہ چھوڑ دیا۔تو اس طرح یہ میری زندگی تمہی نے تو بچائی ہے۔
My Dear یہ ایک اور واقعہ ہے۔جس سے آپ کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ service attitude کیا ہوتا ہے۔مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی سے پوچھیں کہ انہیں دنیا میں کس چیز کی کمی ہے۔اُن سے پوچھیئے کہ وہ جو کام کرتے ہیں اُنہیں اُن سے کیا ملتا ہے’کتنا سکون’کتنا پیار اور کتنی راحت ہے ان کی زندگی میں۔میں یہ تو آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ سب کچھ چھوڑ دیں اور مدر ٹریسا اور عبد الستار ایدھی کی طرح اپنی زندگی ہی قربان کر دیں ان کاموں کیلئے۔لیکن بھائی کچھ نہ کچھ تو کیجئے۔آج ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ service attitudeہماری قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔یہ قوتِ مدافعت وہی تو ہے جو ہمارے جسم میں خداکی طرف سے باہر کی بیماریوں کے خلاف fight کرتی ہے اور اگر کسی شخص کی قوتِ مدافعت کم ہو گی تو کیا ہوگا جی ہاں’اُس کو یہ بیماری جلد لگے گی۔
اسکے علاوہ ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ جو لوگ خدمت خلق کے جذبے سے جیتے ہیں خدمتِ خلق کی وجہ سے اُن کا کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے جوکہ دل کی تمام بیماریوں کی نمبر 1وجہ ہے۔نہ صرف یہ بلکہ service attitude سے جینے والوں کو chest painبھی نہیں ہوتی۔خدمت خلق کا جذبہ آپ کے stress level کو بھی کم کر دیتا ہے اور آپ کے دلوں میں جو تنہائی اور خالی پن کے احساسات ہوتے ہیں۔اُس کا بھی یہی علاج ہے۔نہ صرف یہ بلکہ ریسرچ نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ چار سے چھ گھنٹے social work کرتے ہیں اُن کی زندگی چھ سے آٹھ سال بڑھ جاتی ہے۔؟آئیے لاہور کے ایک SOS Village کا ایک واقعہ سناتا ہوں:
چند ہی ہفتے پہلے میری بیوی کو SOS Village جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر اس کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو SOS Village میں ہی پلی بڑھی ہے۔اب اس کی شادی کی عمر ہے اور وہ بہت ہی خوش تھی کہ کچھ ہی عرصے میں اس کی شادی ہونے والی ہے ۔جس لڑکے سے اُس کی شادی ہو رہی ہے وہ بھی SOS Village میں ہی پلا بڑھا ہے اور وہاں سے ہی ترقی کرتے ہوئے آج کل ریاض میں ایک انجینئرکی جاب کر رہا ہے۔تو وہ لڑکی بہت ہی خوش تھی۔میری بیوی نے اس سے پوچھا اب تم ریاض چلی جائو گی’تمہارے پاس پیسے بھی ہوں گے تو اب زندگی کا کیا ارادہ ہے۔اس نے آگے سے یہ کہا کہ مجھے (B.A)اور کمپیوٹر کورس کرنے کا بہت شوق ہے۔میں یہی کروں گی۔ میری بیوی نے کہا میں یہ نہیں پوچھ رہی کہ تم کیا کروں گی میں تو صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ زندگی گزارنے کا کچھ اور بھی سوچا یا نہیں تو اس نے کہا نہیں میں نے نہیں سوچا’تو میری بیوی نے کہا میں تمہیں سمجھاتی ہوں۔تم سوچو اس بات کو کہ اگر تمھیں SOS Villageمیں پناہ نہ ملتی تو آج تم یہاں ہوتی؟اس نے کہا یہ تو پہلے میں نے کبھی نہیں سوچا اس نے پھر کہا کہ جیسے ابھی تم نے کہا کہ تمہاری شادی ایک sponsor کے ذریعے ہو رہی ہے اگر وہ sponsorتمہیں sponsor نہ کرتا تو تمہاری شادی نہ ہو سکتی۔اُس نے کہا یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔تو اس نے کہا کہ جب تمہارے پاس خداکی طرف سے سب کچھ ہو گا تو کیا تم کسی کی سپانسر بننے کی کوشش نہیں کروگی۔تو اس نے کہا آج سے پہلے میں نے یہ بات کبھی نہیں سوچی۔اب point صرف یہ ہے کہ ہم لوگ ایسی باتیں اپنے لئے تو پسند کرتے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کسی اور کو بھی ہماری ضرورت ہو سکتی ہے۔ایک اور واقعہ سنیے:
ایک شخص کو بیالیس سال کی عمر میں یہ پتہ چلا کہ اس کو terminal cancer ہے۔پہلے تو کچھ مہینے وہ اس پریشانی میں ہی گھربیٹھا رہاکہ ہائے اب زندگی ختم ہو جائے گی اور اس پریشایی میں وہ اور بیمار ہونا شروع ہو گیا۔اچانک ایک دن کسی دوست کا گزر ہوا تو اس نے اس کی حالت دیکھ کے یہ کہا کہ زندگی کا تو پتہ نہیں لیکن تم کیا یہ نہیں سمجھتے کہ تمہاری زندگی کا کچھ اور بھی استعمال ہو سکتا ہے۔اس نے کہا مثلاً’اس نے کہا تم ایسا کام ہی کیوں نہیں کر جاتے کہ لوگ تمہیں ہمیشہ کیلئے یاد رکھیں۔وہ سوچتا رہا اور آخر کار اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ کیونکہ وہ خود کینسر کا مریض ہے اور وہ خود بہت ہی تنہا محسوس کرتا ہے اور یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ شاید اس کے پاس کچھ اور لوگ ہوتے تو وہ اُن سے بات کرتا تو اس نے یہ سوچا کہ میں بھی کینسر ہاسپٹلز میں کینسر کے مریضوں کے ساتھ ہی کام کروں گا۔صبح ہوئی تو اس نے ٹیلیفون گھمانے شروع کئے کینسر ہاسپٹلز میں اور آخر کار اس نے ایک کینسر ہاسپٹل میں بطورِ رضاکار جاب شروع کر دی۔وہ سارا سارا دن کینسر کے مریضوں کے ساتھ باتیں کرتا’اُن کے کپڑے بدلواتا۔اُنہیں کھانا کھلاتا اور بس اسی طرح شام ہو جاتی۔ پہلے ہی ہفتے کے اختتام سے پہلے اسے اپنے جسم میں کچھ تبدیلیاںمحسوس ہونے لگیں۔وہ بہت excitedہوا۔ڈاکٹر سے جاکے بات کی اور آخرکار اپناcheckup کروایا تو یہ پتہ چلاکہ اس کے کینسر کا زخم رک گیا ہے اور مزید grow نہیں ہو رہا۔اس کی خوشی بہت ہی بڑھ گئی اور اس نے یہ سوچا کہ اگر چھ گھنٹے کام کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا ہے تو اگر میں زیادہ کروں تو کیا ہوگا۔اگلے ہفتے سے اس نے سارا دن دس دس گھنٹے کینسر کے مریضوں کے ساتھ گزارنا شروع کیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے کسی کینسر کے مریض کو یہ نہیں بتایا کہ وہ خود بھی کینسر کا مریض ہے۔ایک مہینے کے اندر جب اُسکا دوبارہ چیک اپ ہوا تو ڈاکٹرز نے یہ بتایا کہ اس کے کینسر کے زخم آگے بڑھنا تو دور کی بات بلکہ ٹھیک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بس اس کو اس چیز سے اتنا زیادہ حوصلہ ہوا اور وہ خدا کے آگے سجدے میں پڑ گیا او ر اس نے ساتھ ساتھ meditation بھی شروع کر دی۔
بھائی بات یہ ہے کہ دو مہینے کے اندر اندر اتنی بڑی تبدیلی آگئی۔اس کا جواب آپ خود ڈھونڈ لیجئے کہ دو مہینے کے اندر ہی اس کے کینسر کی جتنی بھی علامات تھیں وہ رک گئیں اور چھ مہینے کے اندر ہی اس کا کینسر ٹھیک ہو گیا۔ڈاکٹروں کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ یہ کیا ہوا۔کچھ لوگ اس کو معجزہ کہتے ہیں’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے اُس کو کسی چیز کا صلہ دیا’کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاید اسے کسی کینسر کے مریض کی دُعا لگ گئی۔اب میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتا ہوں کہ اُسے کیا ہوا۔
ریٹائرڈ لوگوں کو دیکھ کے خصوصاً گھریلوخواتین کو دیکھ کے جوگھروں میں سارا سارا دن وقت گزارتی ہیں مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔میرا اپنا ایک تجربہ ہے کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پر سارا دن گزارتے ہیں یا وہ گھریلو خواتین جن کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں اُن کی صحت بگڑنے لگ پڑتی ہے۔میرا تو یہ ایمان ہے:
“Longer Your Serve, Longer You Live.”
اسکے باوجود مجھے اس چیز پہ حیرانگی ہوتی ہے کہ لوگ کیسے afford کرسکتے ہیں سارا دن گھر میں گزارنا اور کسی کیلئے کچھ نہ کرنا۔ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جولوگ جلدی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اُن کی زندگی بھی کم ہے۔اور خصوصاً جو گھریلو خواتین ہیں آپ خود ہی دیکھیں تو آپ کو بھی یہ احساس ہوگا کہ ان کی صحت بھی کم ہے اور ان کی عمر بھی آپ کو کم نظر آئے گی۔یہ بھی ایک قانونِ قدرت ہی ہے اور وہ قانونِ قدرت کچھ ایسے کہتا ہے کہ چند عرصہ پہلے میں نے ایک ریسرچ دیکھی کہ دنیا میں سب سے زیادہ لمبی عمر جینے والے لوگ وہ ہیں جو آخری وقت تک خدمتِ خلق کرتے رہتے ہیں۔اس کی ایک مثال تو آپ نے مدرٹریسا کی دیکھی ہوگی اوراسی طرح کی ہزاروں مثالیں اور بھی ہیں۔ایک دوسری خوبی مجھے ان خوش’مطمئن اور پُرسکون لوگوں میں یہ نظر آئی کہ یہ تمام لوگ’تمام عمر’اپنی آمدنی کا 10%خیرات دیتے آئے۔جب اُن سے یہ پوچھاکہ آپ خیرات کیوں دیتے ہیں تو اُنہوں نے آگے سے جواب دیا ہمیں یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ ہم جتنا بھی خیرات دیتے ہیںاس سے کئی گناہ ہمیں واپس ملتا ہے۔
تو بھائی ان لوگوں کو تو معلوم نہیں کہ کیوں ملتا ہے ہمیں تو معلوم ہے کہ کیوں ملتا ہے۔یہ تو ہمارے خدا کا وعدہ تھا۔ایک طرف تو یہ لوگ ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ اڑھائی فیصد زکوٰة بھی نہیں دیتے جو کہ ہمارے ہی جان اور مال کا صدقہ ہے۔بھائی میں تو یہ کہتا ہوں کہ:
تو بھائی ان لوگوں کو تو معلوم نہیں کہ کیوں ملتا ہے ہمیں تو معلوم ہے کہ کیوں ملتا ہے۔یہ تو ہمارے خدا کا وعدہ تھا۔ایک طرف تو یہ لوگ ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ اڑھائی فیصد زکوٰة بھی نہیں دیتے جو کہ ہمارے ہی جان اور مال کا صدقہ ہے۔بھائی میں تو یہ کہتا ہوں کہ:
“Charity is the rent of the space on earth.”
کہ یہ جو زکوٰة ہے یہ جو ہماری زندگی اس دنیا کے اوپر ہم نے جو جگہ گھیری ہوئی ہے اُس کا کرایہ ہے۔جیسے اگر آپ کا گھر بڑا ہو یا گھر اچھی جگہ پر ہو تو اُس کا کرایہ زیادہ ہوگا۔اسی طرح اگر خدانے اپنے فضل سے آپ کو اس کائنات پر اچھی بڑی اور بہتر جگہ دی ہو تو کیا آپ کے خیال میں اُس کا کرایہ زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر آپ کا جواب یہی ہے کہ ہاں زیادہ ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو زیادہ زکوٰة دینی چاہیے۔
تیسری خوبی یہ نظر آئی کہ یہ خوش’مطمئن اور پُرسکون لوگ اپنے رشتے داروں’ہمسائیوں اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بہت ہی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں اور یہ لوگ اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے خوش بھی بہت ہیں۔بھئی پڑھے لکھے معاشروں میں لوگ دوسرے کے حقوق کا بہت ہی خیال رکھتے ہیں اور ایک طرف ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ جلسہ ہو تو سڑک بند ‘شادی ہو توسڑک بند’مہندی پر ساری ساری رات گانا بجایا جاتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ساتھ ہمسائیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔بسنت ہوتی ہے تو پورے شہر کو تنگ کیا جاتا ہے۔شورشرابہ کیا جاتا ہے۔اپنے گھر کا کوڑکباڑ لوگوں کے گھر کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔سڑکوں سے چلتی ہوئی گاڑیوں سے چیزیں باہر پھینکی جاتی ہیں۔اب اور تو اور اپنا گھر بنانے کیلئے درخت بھی کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
بھئی ایک طرف تو یہ حال ہے اور دسری طرف میں آپ کو لاہور ایئرپورٹ کا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔کچھ عرصہ پہلے ایئرپورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا توبہت ہی رش نظرآیا۔دو یا تین انٹرنیشنل فلائٹس آجارہی تھیں۔مسافر حضرات جن میں عورتیں’بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی شامل تھے’بہت ہی پریشانی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگتے نظرآئے۔عمرے کی سعادت کیلئے جانے والوں کا بھی بہت ہی رش تھا۔کچھ آگے گیا تو پتہ یہ چلا کہ ایک صاحب عمرے پر جا رہے ہیں اور اُن کی جماعت کے تقریباً پچاس لوگ اُن کو چھوڑنے ایئرپورٹ پر آئے ہوئے ہیں اور وہ ایئرپورٹ کے لائونج میں ہی ایک circle میں کھڑے ہوکے اونچی اونچی آواز میں درودشریف پڑھ رہے ہیں۔میں نے ہمت اکٹھی کر کے اُن کے لیڈر صاحب سے کہا کہ صاحب راستہ رُکا ہوا ہے اگر آپ بُرا نہ منائیں ذرا سائڈ پر ہو جائیے۔تو انہوں نے سخت ناخوشی سے فرمایا ‘استغفار’۔آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم عبادت کر رہے ہیں۔میں نے کہا صاحب معاف کیجئے آپ عبادت تو کر رہے ہیں لیکن آپ کی اس عبادت کی وجہ سے پیچھے بچے اور عورتیں پریشان ہو رہی ہیں۔میں نے کہا جناب مجھے ایک واقعہ سچا یاد آتا ہے اگر اجازت ہو تو سنائوں تو اُنہوں نے بہت ہی ناگواری کے انداز میں کہا جی بتائیے۔
تو میں نے کہا میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ ایک جنگ کے دوران حضورۖ رائونڈ پہ نکلے تو دیکھا کہ سڑک کی دونوں جانب خیموں کی قطاریں لگائی گئی ہیں اور درمیان میں ایک خیمہ علیحدہ نظرآیا جس کی وجہ سے راستہ رُک رہا تھا۔اپنے صحابہ کرام سے پوچھا کہ بھئی یہ دو قطاریں تو سمجھ آتیں ہیں یہ درمیان میں خیمہ کیوں لگایا۔تو فرمایا گیا کہ رسولۖ آپ کی حفاظت کیلئے۔تو آپۖ نے فرمایا کہ اس سے تو جہاد کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔وہ جہاد ہی کیا جو کسی کی تکلیف کا باعث بنے۔یہ سن کر اُن کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن اُس تمام گروپ نے مجھے گالی گلوچ دینی شروع کر دی۔اگر اُن کا بس چلتا تو مارکٹائی ہی شروع ہو جاتی۔بھائی اسلام تو ایک مکمل دین ہے جو آیا ہی انسانیت کی رہنمائی اور بھلائی کیلئے تھا۔اس میں سے اگر یہی نکل گیاتو کیا بچے گا۔کاش ہم یہ بات سمجھ سکتے۔بھائی اپنے لئے تو سارے ہی جیتے ہیں’دوسروں کیلئے جی کے دیکھیں تو پتہ چلے کہ کیا سکون ہے اس میں۔ایک حدیث شریف میں آیا تھا کہ:
”پیغمبروں کے بعد اس دنیا میں اور اس سے اگلی دنیا میں بہترین لوگ وہ ہیں جو ایک دوسرے سے خدا کیلئے پیار کریں۔ ”
اس کے علاوہ وہ لوگ جو اپنی زندگی سے بہت ہی خوش اور مطمئن ہیں اُن میں ایک اور خوبی نظر آئی۔Law of Giving پریقین رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ Law of Giving کیا ہے۔تو بھئی Law of Givingتو یہ کہتا ہے کہ آپ کو زندگی میں جو چاہیے وہ جتنا دوگے اتنا ہی واپس آئے گا۔آپ خود سوال پوچھئیے اپنے آپ سے کہ کیاآپ کو پیار’عزت’علم اور دعائیں نہیں چاہئیں۔جی ہاں! یہ ہم سب کو چاہیے تو اب میرادوسرا سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دیتے کیا ہیں۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کیلئے پسند کرو۔قانونِ قدرت بھی یہی ہے کہ جو دوگے وہی کئی گناہ ہو کے واپس آئے گا۔
تو بھائی اپنے لئے تو ہمیں پیار چاہیے’عزت چاہیے اور دوسروں کو ہم کیا دیتے ہیں نفرتیں’دھتکار۔تو یہ شاید اسی لئے ہمیں ہی سب کچھ مل رہا ہے۔اگر ہم سارے لوگوں کو نفرتیں’بدعائیں’بے عزتی’طعن و ملامت’گالی گلوچ’criticism’بددیانتی’جھوٹ اور دھوکہ ہی دیں گے تو یاد رکھیئے گایہی کئی گناہ ہو کے واپس آئے گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی میں سکون اور خوشی ہی ختم ہو گئی ہے۔رات کو سونے سے پہلے ذرا اپنے دن کو assess ضرور کیجئے گا کہ آج سے اگر آپ کو نیند نہیں آرہی یا اگر آپ کی زندگی میں خوشی نہیں ہے تو آج آپ نے ایسا کیا کام کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا سکون اور راحت ختم ہو گئی ہے۔
مائی ڈیئر! اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ میں سے کس کو دعائیں نہیں چاہئیں’یارحمتیں نہیں چاہئیں۔ہمارے مذہب میں تو ”السلام علیکم” کی طرز پر ہمیں ایک Built in System دیا گیا تھا یعنی کہ لوگوں پہ سلامتی اور رحمتیںبھیجنے کا۔کیا مطلب ہے ”السلام علیکم” کا’ اس کا مطلب ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ذرا سوچئے تو سہی کہ ایک شخص اگر آپ کو نفرت بھی کرتا ہے’آپ کو پسند بھی نہیں کرتا اور اگر آپ اُس کو ”السلام علیکم”کہیں تو وہ جبر ہے تو اگر کچھ نہ بھی کہے تو کم از کم ”واعلیکم”کہے یہ ”واعلیکم” کا مطلب ہے اور تم پر بھی ہو۔اور اگر کچھ نہ ملے اور سارا دن آپ السلام علیکم ہی لوگوں کو کرتے رہیں اور آپ کو واعلیکم ہی ملتا رہے تو سوچئیے شام تک آپ نے اپنے Bagمیں کتنی رحمتیں اکٹھی کر لیں۔آج کل تو یہ حال ہے کہ Social Gatherings میں السلام علیکم کی جگہ Hye, Hello اور اللہ حافظ کی جگہBye Bye نے لے لی ہے۔یہاں تک کہ ٹیلی فون کو دیکھئے’ہم ٹیلی فون Hello کہہ کے اُٹھاتے ہیں اور بات ختم کرتے ہی ٹھک کر کے بند کر دیتے ہیں ۔
اور اگر کوئی سڑک پر چلتے کسی کو السلام علیکم کہہ دے تو یا تو اُسے پاگل سمجھا جاتا ہے اور یا تو اُسے یہ کہہ دیا جاتا ہے Excuse me بھائی کیا میں تمہیں جانتا ہوں۔بھائی یہ مسلمانsociety کو کیا ہو گیا ہے۔ہم میں ہر شخص کو سلامتی چاہیے’ہم سب کو دُعائیںچاہیے لیکن ہم یہ دینا کیوں نہیں چاہتے۔ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ السلام علیکم ہم کس کیلئے کہہ رہے ہیں۔بھئی یہ تو ہم اپنے لئے کہہ رہے ہیں۔
مائی ڈیئرقانونِ قدرت مجھے کچھ ایسا ہی سمجھ آتا ہے۔قانونِ قدرت تو یہ ہے کہ
تیسری خوبی یہ نظر آئی کہ یہ خوش’مطمئن اور پُرسکون لوگ اپنے رشتے داروں’ہمسائیوں اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بہت ہی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں اور یہ لوگ اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے خوش بھی بہت ہیں۔بھئی پڑھے لکھے معاشروں میں لوگ دوسرے کے حقوق کا بہت ہی خیال رکھتے ہیں اور ایک طرف ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ جلسہ ہو تو سڑک بند ‘شادی ہو توسڑک بند’مہندی پر ساری ساری رات گانا بجایا جاتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ساتھ ہمسائیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔بسنت ہوتی ہے تو پورے شہر کو تنگ کیا جاتا ہے۔شورشرابہ کیا جاتا ہے۔اپنے گھر کا کوڑکباڑ لوگوں کے گھر کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔سڑکوں سے چلتی ہوئی گاڑیوں سے چیزیں باہر پھینکی جاتی ہیں۔اب اور تو اور اپنا گھر بنانے کیلئے درخت بھی کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
بھئی ایک طرف تو یہ حال ہے اور دسری طرف میں آپ کو لاہور ایئرپورٹ کا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔کچھ عرصہ پہلے ایئرپورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا توبہت ہی رش نظرآیا۔دو یا تین انٹرنیشنل فلائٹس آجارہی تھیں۔مسافر حضرات جن میں عورتیں’بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی شامل تھے’بہت ہی پریشانی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگتے نظرآئے۔عمرے کی سعادت کیلئے جانے والوں کا بھی بہت ہی رش تھا۔کچھ آگے گیا تو پتہ یہ چلا کہ ایک صاحب عمرے پر جا رہے ہیں اور اُن کی جماعت کے تقریباً پچاس لوگ اُن کو چھوڑنے ایئرپورٹ پر آئے ہوئے ہیں اور وہ ایئرپورٹ کے لائونج میں ہی ایک circle میں کھڑے ہوکے اونچی اونچی آواز میں درودشریف پڑھ رہے ہیں۔میں نے ہمت اکٹھی کر کے اُن کے لیڈر صاحب سے کہا کہ صاحب راستہ رُکا ہوا ہے اگر آپ بُرا نہ منائیں ذرا سائڈ پر ہو جائیے۔تو انہوں نے سخت ناخوشی سے فرمایا ‘استغفار’۔آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم عبادت کر رہے ہیں۔میں نے کہا صاحب معاف کیجئے آپ عبادت تو کر رہے ہیں لیکن آپ کی اس عبادت کی وجہ سے پیچھے بچے اور عورتیں پریشان ہو رہی ہیں۔میں نے کہا جناب مجھے ایک واقعہ سچا یاد آتا ہے اگر اجازت ہو تو سنائوں تو اُنہوں نے بہت ہی ناگواری کے انداز میں کہا جی بتائیے۔
تو میں نے کہا میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ ایک جنگ کے دوران حضورۖ رائونڈ پہ نکلے تو دیکھا کہ سڑک کی دونوں جانب خیموں کی قطاریں لگائی گئی ہیں اور درمیان میں ایک خیمہ علیحدہ نظرآیا جس کی وجہ سے راستہ رُک رہا تھا۔اپنے صحابہ کرام سے پوچھا کہ بھئی یہ دو قطاریں تو سمجھ آتیں ہیں یہ درمیان میں خیمہ کیوں لگایا۔تو فرمایا گیا کہ رسولۖ آپ کی حفاظت کیلئے۔تو آپۖ نے فرمایا کہ اس سے تو جہاد کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔وہ جہاد ہی کیا جو کسی کی تکلیف کا باعث بنے۔یہ سن کر اُن کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن اُس تمام گروپ نے مجھے گالی گلوچ دینی شروع کر دی۔اگر اُن کا بس چلتا تو مارکٹائی ہی شروع ہو جاتی۔بھائی اسلام تو ایک مکمل دین ہے جو آیا ہی انسانیت کی رہنمائی اور بھلائی کیلئے تھا۔اس میں سے اگر یہی نکل گیاتو کیا بچے گا۔کاش ہم یہ بات سمجھ سکتے۔بھائی اپنے لئے تو سارے ہی جیتے ہیں’دوسروں کیلئے جی کے دیکھیں تو پتہ چلے کہ کیا سکون ہے اس میں۔ایک حدیث شریف میں آیا تھا کہ:
”پیغمبروں کے بعد اس دنیا میں اور اس سے اگلی دنیا میں بہترین لوگ وہ ہیں جو ایک دوسرے سے خدا کیلئے پیار کریں۔ ”
اس کے علاوہ وہ لوگ جو اپنی زندگی سے بہت ہی خوش اور مطمئن ہیں اُن میں ایک اور خوبی نظر آئی۔Law of Giving پریقین رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ Law of Giving کیا ہے۔تو بھئی Law of Givingتو یہ کہتا ہے کہ آپ کو زندگی میں جو چاہیے وہ جتنا دوگے اتنا ہی واپس آئے گا۔آپ خود سوال پوچھئیے اپنے آپ سے کہ کیاآپ کو پیار’عزت’علم اور دعائیں نہیں چاہئیں۔جی ہاں! یہ ہم سب کو چاہیے تو اب میرادوسرا سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دیتے کیا ہیں۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کیلئے پسند کرو۔قانونِ قدرت بھی یہی ہے کہ جو دوگے وہی کئی گناہ ہو کے واپس آئے گا۔
تو بھائی اپنے لئے تو ہمیں پیار چاہیے’عزت چاہیے اور دوسروں کو ہم کیا دیتے ہیں نفرتیں’دھتکار۔تو یہ شاید اسی لئے ہمیں ہی سب کچھ مل رہا ہے۔اگر ہم سارے لوگوں کو نفرتیں’بدعائیں’بے عزتی’طعن و ملامت’گالی گلوچ’criticism’بددیانتی’جھوٹ اور دھوکہ ہی دیں گے تو یاد رکھیئے گایہی کئی گناہ ہو کے واپس آئے گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی میں سکون اور خوشی ہی ختم ہو گئی ہے۔رات کو سونے سے پہلے ذرا اپنے دن کو assess ضرور کیجئے گا کہ آج سے اگر آپ کو نیند نہیں آرہی یا اگر آپ کی زندگی میں خوشی نہیں ہے تو آج آپ نے ایسا کیا کام کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا سکون اور راحت ختم ہو گئی ہے۔
مائی ڈیئر! اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ میں سے کس کو دعائیں نہیں چاہئیں’یارحمتیں نہیں چاہئیں۔ہمارے مذہب میں تو ”السلام علیکم” کی طرز پر ہمیں ایک Built in System دیا گیا تھا یعنی کہ لوگوں پہ سلامتی اور رحمتیںبھیجنے کا۔کیا مطلب ہے ”السلام علیکم” کا’ اس کا مطلب ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ذرا سوچئے تو سہی کہ ایک شخص اگر آپ کو نفرت بھی کرتا ہے’آپ کو پسند بھی نہیں کرتا اور اگر آپ اُس کو ”السلام علیکم”کہیں تو وہ جبر ہے تو اگر کچھ نہ بھی کہے تو کم از کم ”واعلیکم”کہے یہ ”واعلیکم” کا مطلب ہے اور تم پر بھی ہو۔اور اگر کچھ نہ ملے اور سارا دن آپ السلام علیکم ہی لوگوں کو کرتے رہیں اور آپ کو واعلیکم ہی ملتا رہے تو سوچئیے شام تک آپ نے اپنے Bagمیں کتنی رحمتیں اکٹھی کر لیں۔آج کل تو یہ حال ہے کہ Social Gatherings میں السلام علیکم کی جگہ Hye, Hello اور اللہ حافظ کی جگہBye Bye نے لے لی ہے۔یہاں تک کہ ٹیلی فون کو دیکھئے’ہم ٹیلی فون Hello کہہ کے اُٹھاتے ہیں اور بات ختم کرتے ہی ٹھک کر کے بند کر دیتے ہیں ۔
اور اگر کوئی سڑک پر چلتے کسی کو السلام علیکم کہہ دے تو یا تو اُسے پاگل سمجھا جاتا ہے اور یا تو اُسے یہ کہہ دیا جاتا ہے Excuse me بھائی کیا میں تمہیں جانتا ہوں۔بھائی یہ مسلمانsociety کو کیا ہو گیا ہے۔ہم میں ہر شخص کو سلامتی چاہیے’ہم سب کو دُعائیںچاہیے لیکن ہم یہ دینا کیوں نہیں چاہتے۔ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ السلام علیکم ہم کس کیلئے کہہ رہے ہیں۔بھئی یہ تو ہم اپنے لئے کہہ رہے ہیں۔
مائی ڈیئرقانونِ قدرت مجھے کچھ ایسا ہی سمجھ آتا ہے۔قانونِ قدرت تو یہ ہے کہ
Give something to everyone.
اور یہی جذبہ ہے انسانیت کا اور خدمت ِ خلق کا۔اب آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ آپ ہر شخص کو کیسے دے سکتے ہیں۔آپ تو روز سینکڑوں لوگوں کو جانتے ہونگے اور روز سینکڑوں لوگوں سے ملتے ہونگے۔تو بھائی جس دینے کی میں بات کر رہا ہوں اس دینے کیلئے آپ کو بہت امیر ہونے کی ضرورت نہیں۔بس اپنے آپ سے یہ عہد کر لیجئے کہ آج سے آپ جتنے لوگوں کو دیکھیں گے اُنہیں کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیں گے۔چاہے آپ ایک مسکراہٹ یعنی Smileہی دیں۔چاہے آپ کسی کو Charity دیں۔ چاہے کسی کو دعا دیں۔آپ خود سوچئیے ایک موٹر سائیکل پہ تین بچے یا چار بچے جا رہے ہیں اور آپ گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ کا خیال یہ نہیں کہ آپ ان کو گزرتے ہوئے کم از کم دعا تو دے سکتے ہیں۔اگر کسی شخص نے آپ سے بدتمیزی کی ہے تو اُسے گالی نکالنے کی بجائے آپ اُس کو سمجھا بھی سکتے ہیں۔آپ اُس کیلئے علم کی دعا بھی کر سکتے ہیں۔آپ اُس کیلئے خدا کی مغفرت کی دعا بھی مانگ سکتے ہیں۔بھائی سارا دن اگر آپ لوگوں کو کچھ نہ کچھ دیتے ہی رہیں گے تو یہی یاد رکھیئے یہی سب کچھ کئی گناہ ہو کر واپس آپ کو ہی ملے گا۔
میں تو لوگوں سے یہ بھی کہتا ہوں کہ
میں تو لوگوں سے یہ بھی کہتا ہوں کہ
We cannot afford not to give.
یعنی کہ یاد رکھیئے کہ جو دے رہے ہیں وہ اپنے لئے ہی دے رہے ہیں’کیونکہ ہمیں بہت چاہیے۔اس کا ایک واقعہ آپ کو سناتاہوں۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ایک مسافر بیٹھا اور اُس مسافر نے اُس ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں شروع کر دیں اور اُس کی ڈرائیونگ تک کی تعریف شروع کر دی۔ڈرائیور بہت ہی خوش ہو گیا اور اس نے اسی خوشی خوشی میں ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں مسافر کو پتہ ہی نہ چلنے دیا اور وہ آپس میں گپ شپ لگاتے رہے۔جب سفر ختم ہوا تو ٹیکسی والے نے پوچھا کہ میں تو ایک عام سا ڈرائیور ہوں آپ نے مجھے یہ کیوں کہا کہ میں بہت ہی اچھی گاڑی چلاتا ہوں۔آج سے پہلے تو مجھے کسی نے نہیں کہا۔تو اُس نے کہا مجھے بہت ہی اچھا لگا اور آپ نے تو میرا دن ہی بنادیا۔اُس نے کہا میں نے اسی لئے تو کہا تھا۔میری تعریف کرنے سے تم خوش ہوئے۔تم جب خوش ہوئے تو تم نے واپسی میں مجھے خوش رکھا۔میں خوش ہوا تو میں نے تمہیں Tip دے دی۔اب تم اور خوش ہو گئے۔اب اگلا مسافر جب تمہارے ساتھ بیٹھے گا تم اُس کو بھی خوش رکھوگے۔وہ تمہاری گپ شپ میں محو رہے گا اور جب دفتر میں جائے گا تو خوشی خوشی کسی اور کو خوش رکھے گا۔تو بھائی اس طریقے سے کتنے لوگوں میں یہ خوشی ٹرانسفر ہوتی چلی جائے گی۔تو بھائی یہ ہے جذبہ’یہ ہے کسی کو کچھ دینے کا جذبہ۔یاد رکھیئے اگر آپ لوگوں میں خوشی اور پیار بانٹتے رہیں گے تو وہ پیار اسی طرح ہی multiplyہوتا رہے گا اور دوسری طرف اگر آپ لوگوں میں نفرتیں یا پریشانیاں بانٹ رہے ہیں تو اُسی طریقے سے وہ پریشانیاں بھی آگے ہی آگے چلتی چلی جائیں گی۔مدرٹریسا کی ایک کہانی سنیے:
مدرٹریساکو پتہ چلا کہ اسی محلے میں ایک عورت اپنے تین بچوں کے ساتھ کافی دنوں سے بھوکی ہے۔وہ اس کیلئے کھانا لے کے گئی۔جب بچے کھانا کھانے پہ آئے تو اُس عورت نے بچوں کو کھانا کھانے سے منع کر دیا۔اُس کھانے کے دو حصے کئے اور مدرٹریساکو کہہ کر کہ میں ابھی آئی گھر سے باہر نکل گئی۔پانچ منٹ کے بعد وہ عورت واپس آئی تو مدرٹریسانے یہ پوچھا کہ تمہارے بچے کھانے پہ تمہارا انتظار کر رہے تھے تم کدھر چلی گئی۔اس نے کہا کہ اسی محلے میں ایک اور عورت بھی ہے اُس کے بھی کچھ بچے ہیں جو پچھلے کافی دنوں سے بھوکے ہیں’میں آدھاکھانا اُن کو دینے کیلئے گئی تھی۔تو مدرٹریسا نے روتے ہوئے یہ پوچھا کہ تمہارے تو اپنے بچے بھی بھوکے تھے تو اس نے کہا انہی بچوں کی بھوک کیلئے تو میں وہ کھانا دینے گئی تھی۔کیونکہ مجھے یہ پتہ ہے کہ یہ دینے میں ہی تو ہے کہ اُسی کے صدقے میرے بچوں کو بھی کھانا ملے گا۔
میرے بھائی یہ سوچئے کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا کچھ ہے۔بدقسمتی سے جب ہم یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے تو ہمیں زیادہ نظر نہیں آتا۔کیونکہ ہمارے نزدیک دینا صرف پیسہ ہی ہے۔آپ سوچئے کہ آپ کو خدا نے کتنا کچھ دیاہے جو آپ دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو دعائیں دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں میں تعلیم بانٹ سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو پیار دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو smile دے سکتے ہیں۔آپ بہت کچھ دے سکتے ہیں۔دینے والے تو بنئے۔قرآنِ پاک میں سورة بقرہ کی آیت: 83میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم لوگوں کو اچھے الفاظ ہی دے دیا کرو۔تو مائی ڈیئر یہ ہے جذبہ دینے کا۔اس کے علاوہ جب میں نے خوش اور مطمئن لوگوں سے یہ پوچھا کہ کیاآپ کے ساتھ کسی شخص نے یا زمانے نے زیادتی کی ہو جو کہ آپ کو آج تک یاد ہویا آپ اُس شخص کو بُرا سمجھتے ہوں تو جواب کچھ ایسا ملا کہ بھائی ہم اتنے پاگل بھی نہیں کہ اپنے دلوں میں نفرتیں رکھیں جو کسی تک تو نہیں پہنچیں گی لیکن ہمیں ہی ختم کر جائیں گی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی لیکن یہ تمام لوگ معافی اور درگزر کی سائیکالوجی پر یقین رکھتے ہیںجو یہ کہتی ہے کہ اگر خدا سے معافی چاہیے تو لوگوں کو معاف کرنا اور لوگوں سے معافی مانگنا سیکھو۔اگر آپGuiltیا نفرت کے جذبے کے ساتھ جئیں گے تو یہ آپ کو ہی تو نقصان پہنچائے گا۔بھئی سچ تو یہ ہے کہ ہم کسی کو معاف نہیں کرتے بلکہ کسی کو معاف کرنے یا معافی مانگنے سے ہم اپنے آپ کو ہی معاف کرتے ہیں اور ویسے بھی کونسا شخص ہے اس زمانے میں جس نے کوئی غلطی یا کوتاہی نہ کی ہو اور جس کو خدا سے معافی نہیں چاہیے۔اور اگر ہمیں معافی خداسے چاہیے تو ہمیں اس خدا کا حکم بھی ماننا چاہیے جس نے یہ فرمایا کہ اگر تمیں خدا سے معافی اور درگزر چاہیے تو تمہیں بھی معاف کرنا چاہیے۔
ایک واقعہ سنیے شاید اس سے آپ کے معافی کاconcept کچھ بہتر ہو جائے۔ایک چھوٹے سے قصبے میں تین بہت ہی شرارتی بچے رہا کرتے تھے اور روزانہ لوگوں کو تنگ کرنے کی نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈتے۔ایک دن انہوں نے اس قصبے کے ایک پولیس والے کے نام کے ساتھ ایک گالی لکھ کر دیوار کے ساتھ لگا دی۔جب پولیس ولے کو پتہ چلا تو اُس نے تینوں بچوں کو بلایا اور اُن سے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے۔اُس نے ان کو بہت ہی تسلی دی کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا صرف تم کو یہ realize کرانا چاہتا ہوں۔اُن میں سے دو بچوں نے تو مان لیا اور اُس سے sorry کر لیا۔لیکن تیسرے نے ماننے سے ہی انکار کر دیا۔زندگی گزرتی گئی۔بچے بڑے ہوتے گئے اور شہروں میں چلے گئے۔پولیس والے کی بھی ٹرانسفر ہو گئی۔تیسرا بچہ جس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اُسے دل پر ہر وقت کوئی نہ کوئی بوجھ سا لگتا۔کسی سے بات کی تو اُس نے بتایا کہ بچپن میں ایسا واقعہ ہوا تھا اور میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں بھی غلطی مان کر معافی مانگ ہی لیتا اُس وقت۔اُس نے کہا کہ اگر یہ Guiltتمہیں ابھی تک تنگ کر رہا ہے تو تمہیں اس پولیس والے کو ڈھونڈ کر اُس سے معافی مانگ لینی چاہیے۔تو صاحب بڑی ہی کوششوںسے اُس نے آخر اُس پولیس والے کا پتہ چلا ہی لیا۔اُس کو فون کیا اور اُس کو وہ واقعہ یاد کرا کے کہا کہ میں وہی بچہ بول رہا ہوں۔اس بات کو اس وقت بائیس سال گزر چکے تھے۔جب اُس نے فون پر اُس سے یہ کہا کہ میں تم سے بہت ہی ضروری بات کرنا چاہتا ہوں تو آگے سے پولیس والے نے کہا کہ مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ تم نے مجھے کال کیا کیونکہ میں تمہارے بارے میں بہت ہی پریشان تھا کہ تم بائیس سالوں سے اس Guilt کو لئے کیسے جی رہے ہوگے۔تو بھائی یہ ہے Guiltاور یہ کیا کر سکتا ہے۔
اللہ تو غفورو رحیم ہے اور اگر آپ سے غلطی یا کوتاہی ہو ہی جائے تو آپ کو تو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے۔اور اُس سے معافی کیسے مانگی جاتی ہے لیکن ذرا یہ تو سوچئے کہ آج سڑک پر چلتے ہوئے جس کے ساتھ زیادتی کی’جس کا حق مارا یا جس کو تکلیف پہنچائی’اگر آج اُس سے آپ نے معافی نہ مانگی تو پھر اُسے کہاں ڈھونڈیں گے۔یہ ہماری جو ego ہے یہ ہر وقت ہمارے آڑے آجاتی ہے اور ہمیں معافی مانگنے سے روکتی رہتی ہے۔لاہور کے شہر کا ایک اور واقعہ سناتا چلوں۔
لاہور کا واقعہ جو میں سنانے والا ہوں اس سے شاید آپ کو یہ forgiveness کا conceptبالکل crystal clearہو جائے۔ایک عورت کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ بہت ہی سخت بیمار ہے اور اُن کی فیملی کے کسی ممبر نے اُن کو ہمارے بارے میں بتایا اور وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔جب ملاقات ہوئی تو مجھے ایک خاتون بستر پر لیٹی ہوئی نظر آئیں۔مجھے دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہ سکیں۔عمر سے کوئی زیادہ تو نہیں لگ رہی تھی لیکن چہرہ بہت ہی بے رونق’پریشان اور جسم کافی بھاری۔میں نے اُن سے اُن کی زندگی کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو پتہ یہ چلا کہ چار سال پہلے اُن کے خاوند نے دوسری شادی کرلی اور اب اُس کے دو بچے ہیں۔تب سے seperated ہیں اور اپنے ماں باپ کے گھر رہائش پزیر ہیں۔اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد اُنہیں Urinary tract کی infection ہو گئی۔جو بڑھتے بڑھتے گردوں تک چلی گئی۔اس کے بعد کمر کا درد اور Migraine بھی شروع ہو گئی۔لاہور کا کوئی ہسپتال اور ڈاکٹر ایسا نہیں جو اُنہوں نے چیک نہ کیا ہو۔پچھلے تین سالوں سے وہ antibiotics ہی کھا رہی ہیں لیکن infection ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔میں نے جب یہ پتہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے بیٹھے بیٹھے ہی اُنہوں نے اپنے خاوند اور اُس کی بیوی اور اپنے بچوں کے بارے میں سخت نفرت کا اظہار کیا اور وہ ہر چیز کا قصور وار صرف اُنہی کو ٹھہراتی ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ اُنہوں نے اتنی بددعائیں دیں۔جب پندرہ بیس منٹ کے بعد اُن کی چھوٹی سی کہانی ختم ہو ئی تو میں نے اُن سے کہا کہ بی بی آپ کے دل میں اتنی نفرت ہے اُن کے خلاف کیا آپ اُن کو معاف کرنا پسند کریں گی۔تو انہوں نے مجھے یہ کہا آپ تو میری مدد کرنے آئے ہیں’میں ایک ایسے شخص کو کیسے معاف کر سکتی ہوں۔میں نے کہا بی بی آپ اُس شخص کو معاف نہ کیجئے میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے اپنے آپ کو معاف کرنا ہے تو آپ کو اس کو معاف کرنا ہی پڑے گا’آگے آپ کی مرضی۔انہوں نے انکار کردیا۔تین مہینے کے بعد مجھے اُن کے گھر سے فون آیا اور مجھے بلایا گیا۔جب میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ تین مہینے میں ان خاتون کی حالت بہت ہی بُری ہو چکی ہے اور وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔میں نے پھر وہی بات کہی کہ اب تو آپ سمجھ جائیں’اب تو آپ step لیجئے اور اپنے لئے معافی مانگئے۔ناچاہتے ہوئے انہوں نے فون اُٹھایا اور اپنے خاوند سے بات کی۔خوش قسمتی سے وہ گھر مل گئے اور جب اُنہیں یہ پتہ چلا کہ یہ بہت ہی بیمار ہیں تو وہ آدھے ہی گھنٹے کے اندر اُن کے گھر پہنچ گئے۔ان کی حالت دیکھ کر وہ دونوں میاں بیوی بہت ہی پریشان ہوئے اوریہ بات کی کہ ہم ان کو اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ناچاہتے ہوئے’ناں ناں کرتے ہوئے مجبوری میں ‘میں نے ان کے ماں باپ سے بات کر کے ان کو اُن کے ساتھ بھجوایا۔کیونکہ Seperation ہوئی تھی’divorce نہیں تھی۔
اس بات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ ان کی حالت بہتر ہونی شروع ہو گئی۔ان کی infection بہتر ہونی شروع ہو گئی۔ان کی کمر کی درد اور Migrare ختم ہو گئی اور اُن کی زندگی کچھ کچھ نارمل ہونی شروع ہوگئی۔قصہء مختصر آپ کو اس کہانی کا end بتادوںکہ اس بات کو ڈیڑھ سال گھر گزر چکا ہے۔وہ خاتون خدا کا شکر ہے مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ خدمت ِ خلق بھی کر رہی ہیں۔بچوں کو پڑھاتی ہیں اور ابھی recently انہوں نے ایک سکول شروع کیا ہے جس میں وہ غریب بچوں کو مفت تعلیم وتربیت دیں گی۔
مائی ڈیئر یہ کیا ہے۔آپ خود سوچ لیجئے۔یہ کیا concept ہے’اُن کو بچوں کی دعائیں لگیں یا ان کی معافی سے ان کے دل کا’ ضمیر کاGuilt ختم ہو گیا یا اُن کی جو بددعائیں تھیں وہی ان کو واپس آرہی تھیں جو ان کے علاج میں حائل ہو رہی تھیں۔ یا یہ معجزہ تھا۔یہ کیا تھا۔یہ اب آپ خود سوچ لیجئے یہ کیا تھا۔
آج آپ اپنے آپ کو معاف کر دیجئے اور اپنے اس Guilt اور نفرتوں سے باہر نکلنے کیلئے ٹیلی فون اُٹھائیے اور جس شخص سے معافی مانگنی ہے یا جس شخص کو معاف کرنا چاہتے ہیں اُسے کر دیجئے۔اگر آپ کو اس شخص کا پتہ نہیں معلوم تو اس کی تصویر اپنی آنکھوں کے آگے لے آئیے’اونچی آواز میں اُس سے کہیے میں نے تمہیں خدا کیلئے معاف کیا’یا خدا کے واسطے مجھے معاف کر دو۔
ذرا سوچئے کہ یہ لفظ forgiving دوہی لفظوں سے مل کر بنا ہے۔for اورgiving ۔For کا مطلب کیلئے اور Giving دے دیا۔یعنی کہ خدا کیلئے دے دینا۔جب آپ سچے دل سے کسی کو خدا کیلئے معاف کر دیں گے یا خدا کیلئے کسی سے معافی مانگ لیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کتنے ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں۔یاد رکھیئے اسGuilt اور نفرت کا کتنا وزن ہے ہمارے دلوں پر۔لوگوں سے forgiveness کے فوائد سن کر ایک دن سوچا کہ میں لکھوں تو سہی forgiveness کے بارے میں۔تو جو لکھا وہ آپ سے share کرنا چاہ رہا ہوں۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ایک مسافر بیٹھا اور اُس مسافر نے اُس ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں شروع کر دیں اور اُس کی ڈرائیونگ تک کی تعریف شروع کر دی۔ڈرائیور بہت ہی خوش ہو گیا اور اس نے اسی خوشی خوشی میں ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں مسافر کو پتہ ہی نہ چلنے دیا اور وہ آپس میں گپ شپ لگاتے رہے۔جب سفر ختم ہوا تو ٹیکسی والے نے پوچھا کہ میں تو ایک عام سا ڈرائیور ہوں آپ نے مجھے یہ کیوں کہا کہ میں بہت ہی اچھی گاڑی چلاتا ہوں۔آج سے پہلے تو مجھے کسی نے نہیں کہا۔تو اُس نے کہا مجھے بہت ہی اچھا لگا اور آپ نے تو میرا دن ہی بنادیا۔اُس نے کہا میں نے اسی لئے تو کہا تھا۔میری تعریف کرنے سے تم خوش ہوئے۔تم جب خوش ہوئے تو تم نے واپسی میں مجھے خوش رکھا۔میں خوش ہوا تو میں نے تمہیں Tip دے دی۔اب تم اور خوش ہو گئے۔اب اگلا مسافر جب تمہارے ساتھ بیٹھے گا تم اُس کو بھی خوش رکھوگے۔وہ تمہاری گپ شپ میں محو رہے گا اور جب دفتر میں جائے گا تو خوشی خوشی کسی اور کو خوش رکھے گا۔تو بھائی اس طریقے سے کتنے لوگوں میں یہ خوشی ٹرانسفر ہوتی چلی جائے گی۔تو بھائی یہ ہے جذبہ’یہ ہے کسی کو کچھ دینے کا جذبہ۔یاد رکھیئے اگر آپ لوگوں میں خوشی اور پیار بانٹتے رہیں گے تو وہ پیار اسی طرح ہی multiplyہوتا رہے گا اور دوسری طرف اگر آپ لوگوں میں نفرتیں یا پریشانیاں بانٹ رہے ہیں تو اُسی طریقے سے وہ پریشانیاں بھی آگے ہی آگے چلتی چلی جائیں گی۔مدرٹریسا کی ایک کہانی سنیے:
مدرٹریساکو پتہ چلا کہ اسی محلے میں ایک عورت اپنے تین بچوں کے ساتھ کافی دنوں سے بھوکی ہے۔وہ اس کیلئے کھانا لے کے گئی۔جب بچے کھانا کھانے پہ آئے تو اُس عورت نے بچوں کو کھانا کھانے سے منع کر دیا۔اُس کھانے کے دو حصے کئے اور مدرٹریساکو کہہ کر کہ میں ابھی آئی گھر سے باہر نکل گئی۔پانچ منٹ کے بعد وہ عورت واپس آئی تو مدرٹریسانے یہ پوچھا کہ تمہارے بچے کھانے پہ تمہارا انتظار کر رہے تھے تم کدھر چلی گئی۔اس نے کہا کہ اسی محلے میں ایک اور عورت بھی ہے اُس کے بھی کچھ بچے ہیں جو پچھلے کافی دنوں سے بھوکے ہیں’میں آدھاکھانا اُن کو دینے کیلئے گئی تھی۔تو مدرٹریسا نے روتے ہوئے یہ پوچھا کہ تمہارے تو اپنے بچے بھی بھوکے تھے تو اس نے کہا انہی بچوں کی بھوک کیلئے تو میں وہ کھانا دینے گئی تھی۔کیونکہ مجھے یہ پتہ ہے کہ یہ دینے میں ہی تو ہے کہ اُسی کے صدقے میرے بچوں کو بھی کھانا ملے گا۔
میرے بھائی یہ سوچئے کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا کچھ ہے۔بدقسمتی سے جب ہم یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے تو ہمیں زیادہ نظر نہیں آتا۔کیونکہ ہمارے نزدیک دینا صرف پیسہ ہی ہے۔آپ سوچئے کہ آپ کو خدا نے کتنا کچھ دیاہے جو آپ دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو دعائیں دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں میں تعلیم بانٹ سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو پیار دے سکتے ہیں۔آپ لوگوں کو smile دے سکتے ہیں۔آپ بہت کچھ دے سکتے ہیں۔دینے والے تو بنئے۔قرآنِ پاک میں سورة بقرہ کی آیت: 83میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم لوگوں کو اچھے الفاظ ہی دے دیا کرو۔تو مائی ڈیئر یہ ہے جذبہ دینے کا۔اس کے علاوہ جب میں نے خوش اور مطمئن لوگوں سے یہ پوچھا کہ کیاآپ کے ساتھ کسی شخص نے یا زمانے نے زیادتی کی ہو جو کہ آپ کو آج تک یاد ہویا آپ اُس شخص کو بُرا سمجھتے ہوں تو جواب کچھ ایسا ملا کہ بھائی ہم اتنے پاگل بھی نہیں کہ اپنے دلوں میں نفرتیں رکھیں جو کسی تک تو نہیں پہنچیں گی لیکن ہمیں ہی ختم کر جائیں گی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی لیکن یہ تمام لوگ معافی اور درگزر کی سائیکالوجی پر یقین رکھتے ہیںجو یہ کہتی ہے کہ اگر خدا سے معافی چاہیے تو لوگوں کو معاف کرنا اور لوگوں سے معافی مانگنا سیکھو۔اگر آپGuiltیا نفرت کے جذبے کے ساتھ جئیں گے تو یہ آپ کو ہی تو نقصان پہنچائے گا۔بھئی سچ تو یہ ہے کہ ہم کسی کو معاف نہیں کرتے بلکہ کسی کو معاف کرنے یا معافی مانگنے سے ہم اپنے آپ کو ہی معاف کرتے ہیں اور ویسے بھی کونسا شخص ہے اس زمانے میں جس نے کوئی غلطی یا کوتاہی نہ کی ہو اور جس کو خدا سے معافی نہیں چاہیے۔اور اگر ہمیں معافی خداسے چاہیے تو ہمیں اس خدا کا حکم بھی ماننا چاہیے جس نے یہ فرمایا کہ اگر تمیں خدا سے معافی اور درگزر چاہیے تو تمہیں بھی معاف کرنا چاہیے۔
ایک واقعہ سنیے شاید اس سے آپ کے معافی کاconcept کچھ بہتر ہو جائے۔ایک چھوٹے سے قصبے میں تین بہت ہی شرارتی بچے رہا کرتے تھے اور روزانہ لوگوں کو تنگ کرنے کی نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈتے۔ایک دن انہوں نے اس قصبے کے ایک پولیس والے کے نام کے ساتھ ایک گالی لکھ کر دیوار کے ساتھ لگا دی۔جب پولیس ولے کو پتہ چلا تو اُس نے تینوں بچوں کو بلایا اور اُن سے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے۔اُس نے ان کو بہت ہی تسلی دی کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا صرف تم کو یہ realize کرانا چاہتا ہوں۔اُن میں سے دو بچوں نے تو مان لیا اور اُس سے sorry کر لیا۔لیکن تیسرے نے ماننے سے ہی انکار کر دیا۔زندگی گزرتی گئی۔بچے بڑے ہوتے گئے اور شہروں میں چلے گئے۔پولیس والے کی بھی ٹرانسفر ہو گئی۔تیسرا بچہ جس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اُسے دل پر ہر وقت کوئی نہ کوئی بوجھ سا لگتا۔کسی سے بات کی تو اُس نے بتایا کہ بچپن میں ایسا واقعہ ہوا تھا اور میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں بھی غلطی مان کر معافی مانگ ہی لیتا اُس وقت۔اُس نے کہا کہ اگر یہ Guiltتمہیں ابھی تک تنگ کر رہا ہے تو تمہیں اس پولیس والے کو ڈھونڈ کر اُس سے معافی مانگ لینی چاہیے۔تو صاحب بڑی ہی کوششوںسے اُس نے آخر اُس پولیس والے کا پتہ چلا ہی لیا۔اُس کو فون کیا اور اُس کو وہ واقعہ یاد کرا کے کہا کہ میں وہی بچہ بول رہا ہوں۔اس بات کو اس وقت بائیس سال گزر چکے تھے۔جب اُس نے فون پر اُس سے یہ کہا کہ میں تم سے بہت ہی ضروری بات کرنا چاہتا ہوں تو آگے سے پولیس والے نے کہا کہ مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ تم نے مجھے کال کیا کیونکہ میں تمہارے بارے میں بہت ہی پریشان تھا کہ تم بائیس سالوں سے اس Guilt کو لئے کیسے جی رہے ہوگے۔تو بھائی یہ ہے Guiltاور یہ کیا کر سکتا ہے۔
اللہ تو غفورو رحیم ہے اور اگر آپ سے غلطی یا کوتاہی ہو ہی جائے تو آپ کو تو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے۔اور اُس سے معافی کیسے مانگی جاتی ہے لیکن ذرا یہ تو سوچئے کہ آج سڑک پر چلتے ہوئے جس کے ساتھ زیادتی کی’جس کا حق مارا یا جس کو تکلیف پہنچائی’اگر آج اُس سے آپ نے معافی نہ مانگی تو پھر اُسے کہاں ڈھونڈیں گے۔یہ ہماری جو ego ہے یہ ہر وقت ہمارے آڑے آجاتی ہے اور ہمیں معافی مانگنے سے روکتی رہتی ہے۔لاہور کے شہر کا ایک اور واقعہ سناتا چلوں۔
لاہور کا واقعہ جو میں سنانے والا ہوں اس سے شاید آپ کو یہ forgiveness کا conceptبالکل crystal clearہو جائے۔ایک عورت کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ بہت ہی سخت بیمار ہے اور اُن کی فیملی کے کسی ممبر نے اُن کو ہمارے بارے میں بتایا اور وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔جب ملاقات ہوئی تو مجھے ایک خاتون بستر پر لیٹی ہوئی نظر آئیں۔مجھے دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہ سکیں۔عمر سے کوئی زیادہ تو نہیں لگ رہی تھی لیکن چہرہ بہت ہی بے رونق’پریشان اور جسم کافی بھاری۔میں نے اُن سے اُن کی زندگی کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو پتہ یہ چلا کہ چار سال پہلے اُن کے خاوند نے دوسری شادی کرلی اور اب اُس کے دو بچے ہیں۔تب سے seperated ہیں اور اپنے ماں باپ کے گھر رہائش پزیر ہیں۔اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد اُنہیں Urinary tract کی infection ہو گئی۔جو بڑھتے بڑھتے گردوں تک چلی گئی۔اس کے بعد کمر کا درد اور Migraine بھی شروع ہو گئی۔لاہور کا کوئی ہسپتال اور ڈاکٹر ایسا نہیں جو اُنہوں نے چیک نہ کیا ہو۔پچھلے تین سالوں سے وہ antibiotics ہی کھا رہی ہیں لیکن infection ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔میں نے جب یہ پتہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے بیٹھے بیٹھے ہی اُنہوں نے اپنے خاوند اور اُس کی بیوی اور اپنے بچوں کے بارے میں سخت نفرت کا اظہار کیا اور وہ ہر چیز کا قصور وار صرف اُنہی کو ٹھہراتی ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ اُنہوں نے اتنی بددعائیں دیں۔جب پندرہ بیس منٹ کے بعد اُن کی چھوٹی سی کہانی ختم ہو ئی تو میں نے اُن سے کہا کہ بی بی آپ کے دل میں اتنی نفرت ہے اُن کے خلاف کیا آپ اُن کو معاف کرنا پسند کریں گی۔تو انہوں نے مجھے یہ کہا آپ تو میری مدد کرنے آئے ہیں’میں ایک ایسے شخص کو کیسے معاف کر سکتی ہوں۔میں نے کہا بی بی آپ اُس شخص کو معاف نہ کیجئے میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے اپنے آپ کو معاف کرنا ہے تو آپ کو اس کو معاف کرنا ہی پڑے گا’آگے آپ کی مرضی۔انہوں نے انکار کردیا۔تین مہینے کے بعد مجھے اُن کے گھر سے فون آیا اور مجھے بلایا گیا۔جب میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ تین مہینے میں ان خاتون کی حالت بہت ہی بُری ہو چکی ہے اور وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔میں نے پھر وہی بات کہی کہ اب تو آپ سمجھ جائیں’اب تو آپ step لیجئے اور اپنے لئے معافی مانگئے۔ناچاہتے ہوئے انہوں نے فون اُٹھایا اور اپنے خاوند سے بات کی۔خوش قسمتی سے وہ گھر مل گئے اور جب اُنہیں یہ پتہ چلا کہ یہ بہت ہی بیمار ہیں تو وہ آدھے ہی گھنٹے کے اندر اُن کے گھر پہنچ گئے۔ان کی حالت دیکھ کر وہ دونوں میاں بیوی بہت ہی پریشان ہوئے اوریہ بات کی کہ ہم ان کو اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ناچاہتے ہوئے’ناں ناں کرتے ہوئے مجبوری میں ‘میں نے ان کے ماں باپ سے بات کر کے ان کو اُن کے ساتھ بھجوایا۔کیونکہ Seperation ہوئی تھی’divorce نہیں تھی۔
اس بات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ ان کی حالت بہتر ہونی شروع ہو گئی۔ان کی infection بہتر ہونی شروع ہو گئی۔ان کی کمر کی درد اور Migrare ختم ہو گئی اور اُن کی زندگی کچھ کچھ نارمل ہونی شروع ہوگئی۔قصہء مختصر آپ کو اس کہانی کا end بتادوںکہ اس بات کو ڈیڑھ سال گھر گزر چکا ہے۔وہ خاتون خدا کا شکر ہے مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ خدمت ِ خلق بھی کر رہی ہیں۔بچوں کو پڑھاتی ہیں اور ابھی recently انہوں نے ایک سکول شروع کیا ہے جس میں وہ غریب بچوں کو مفت تعلیم وتربیت دیں گی۔
مائی ڈیئر یہ کیا ہے۔آپ خود سوچ لیجئے۔یہ کیا concept ہے’اُن کو بچوں کی دعائیں لگیں یا ان کی معافی سے ان کے دل کا’ ضمیر کاGuilt ختم ہو گیا یا اُن کی جو بددعائیں تھیں وہی ان کو واپس آرہی تھیں جو ان کے علاج میں حائل ہو رہی تھیں۔ یا یہ معجزہ تھا۔یہ کیا تھا۔یہ اب آپ خود سوچ لیجئے یہ کیا تھا۔
آج آپ اپنے آپ کو معاف کر دیجئے اور اپنے اس Guilt اور نفرتوں سے باہر نکلنے کیلئے ٹیلی فون اُٹھائیے اور جس شخص سے معافی مانگنی ہے یا جس شخص کو معاف کرنا چاہتے ہیں اُسے کر دیجئے۔اگر آپ کو اس شخص کا پتہ نہیں معلوم تو اس کی تصویر اپنی آنکھوں کے آگے لے آئیے’اونچی آواز میں اُس سے کہیے میں نے تمہیں خدا کیلئے معاف کیا’یا خدا کے واسطے مجھے معاف کر دو۔
ذرا سوچئے کہ یہ لفظ forgiving دوہی لفظوں سے مل کر بنا ہے۔for اورgiving ۔For کا مطلب کیلئے اور Giving دے دیا۔یعنی کہ خدا کیلئے دے دینا۔جب آپ سچے دل سے کسی کو خدا کیلئے معاف کر دیں گے یا خدا کیلئے کسی سے معافی مانگ لیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کتنے ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں۔یاد رکھیئے اسGuilt اور نفرت کا کتنا وزن ہے ہمارے دلوں پر۔لوگوں سے forgiveness کے فوائد سن کر ایک دن سوچا کہ میں لکھوں تو سہی forgiveness کے بارے میں۔تو جو لکھا وہ آپ سے share کرنا چاہ رہا ہوں۔
what could one want that forgiveness cannot offer.
Do you want love, forgiveness furnishes it.
Do you want true joy and happiness?
Forgiveness promises both.
Do you seek peace of mind?
Forgiveness renders it too.
Do you care for a clear and clean mind?
Forgiveness shows how
you care for a kind heart
Forgiveness confers it too.
Do you want health?
Forgiveness will grant it as well.
Do you want a feeling of self-worth?
Forgiveness offers a lot.
Do you want the power that transforms the world?
Forgiveness awards it too.
Do you want a shiny face and glowing eyes,
Forgiveness presents it as well.
Do you want safety and protection?
Forgiveness assures it too.
Do you want kindness, Gentleness, and Humbleness?
Forgiveness bestows it all.
Do you want a quiet sleep?
Forgiveness ensures it too.
Or you may wish to be pardoned by the Creator.
Only Forgiveness can make it happen.
All this forgiveness offers us and much more. But my question is then why we are so reluctant to forgive.
Do you want true joy and happiness?
Forgiveness promises both.
Do you seek peace of mind?
Forgiveness renders it too.
Do you care for a clear and clean mind?
Forgiveness shows how
you care for a kind heart
Forgiveness confers it too.
Do you want health?
Forgiveness will grant it as well.
Do you want a feeling of self-worth?
Forgiveness offers a lot.
Do you want the power that transforms the world?
Forgiveness awards it too.
Do you want a shiny face and glowing eyes,
Forgiveness presents it as well.
Do you want safety and protection?
Forgiveness assures it too.
Do you want kindness, Gentleness, and Humbleness?
Forgiveness bestows it all.
Do you want a quiet sleep?
Forgiveness ensures it too.
Or you may wish to be pardoned by the Creator.
Only Forgiveness can make it happen.
All this forgiveness offers us and much more. But my question is then why we are so reluctant to forgive.
مائی ڈیئر یہ قوانین ِ قدرت ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔قانونِ قدرت کے بارے میں تو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل دیواروں کی طرح ہیں۔دیواروں سے آپ اپنا سر ٹکرا سکتے ہیں لیکن دیواروں کو آپ ہلاِ نہیں سکتے۔جو جہاں ہیں وہیں پہ رہیں گی۔آپکی جسمانی ‘جذباتی’روحانی اور دماغی صحت کا دارومدار انہی پر تو ہے۔یاد رکھیئے کہ اگر آپ جذباتی’دماغی’یا روحانی طور پر صحت مند نہ ہوں تو آپ جسمانی طور پر بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔
کبھی آپ نے یہ نہیں سوچاکہ اگر شام کو آپ کو کسی بات پہ صدمہ پہنچے یا آپ کا کوئی دوست آپ کو دھوکہ دے دے تو صبح آپ کے احساسات آپ کے جسم کے ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ آپ بیمار ہیں اور کالج میں ‘آفس میں فون کر کے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے جسم کو توکچھ نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ جذباتی طور پر آپ unhealthy تھے ‘آپ کا جسم بھی unhealthy ہوگیا۔
زندگی گزارنے کا یہی طریقہ ہے’آپ کو پسند ہے یا نہیںخدمت ِ خلق کے جذبے سے جئیں اور لوگوں کو دینا سیکھیں۔یاد رکھیئے اوپر والا ہاتھ جو دینے والاہے نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔مسکراہٹوں اور خوشی کے ساتھ جئیں۔معافی اور درگزر کے ساتھ کام لیں۔یہ معاشرہ اور ملک جنت بن جائے گا اگر ہم چھیننے اور لینے کی بجائے معاف کرنے اور دینے کی عادت کو اپنائیں۔اپنے لئے اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے جو آپ کریں گے وہی آئندہ نسلیں بھی کریں گی۔ایک اور سچا واقعہ سنیے:
ایک صاحب پچپن سال کی عمر میں اپنی بیماری کی وجہ سے Early Retirement لے بیٹھے۔بہت ہی بیمار تھے۔کافی عرصے سے بیمار رہے۔ہر طرح کے ڈاکٹر کو آزمالیا اور حالت یہ ہو گئی کہ Wheel Chair پر آگئے۔جسم ایک طرف سے فالج زدہ ہو گیا۔آخر بات مجھ تک پہنچی۔میں نے ان سے ملاقات کی تو میں نے اُن کے گھر میں یہ دیکھا کہ اُن کے پاس ملازم کے سوا کوئی نہیں۔تو جب میں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔پتہ یہ چلا کہ ان کے چار بچے ہیں اور چاروں retarded ہیں۔تین دفعہ شادی ہو چکی ہے۔پہلی بیوی کی deathہو گئی۔ایک ہی بھائی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں۔یہ بات مجھے سناتے جائیں اور روتے جائیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو اُنہوں نے یہ کہا کہ بس کچھ نہ پوچھیں خدا نے میرے ساتھ بہت ظلم کئے تو میں نے ان سے یہ کہا کہ خدا کسی پر ظلم تو نہیں کرتا۔آپ سوچئے کہ آپ سے کہیں کوئی ایسی کوتاہی تو نہ ہوئی اس کی وجہ سے ایسا ہواآپ کے ساتھ۔تو بہت ہی ناراض ہو گئے۔میں نے اُن سے یہی بات کہی کہ بھائی میں تو آپ کو realize کروانا چاہ رہا ہوں۔ اگر میری کسی بات پہ آپ کو تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کیجئے گا۔لیکن میرااس بات پر ایمان ہے اور یہی قرآنِ پاک میں بھی بار بار آیا ہے کہ جو بھی تم پہ ہوتا ہے کہ خدا کو مزہ نہیں آتا آپ کو تکلیف دے کے یہ آپ کی اپنی ہی وجہ سے ہوتا ہے۔خیر میں اُنہیں یہ کہہ کہ چلا آیا۔دو تین مہینے کے دوران فون پہ میری اُن سے کئی دفعہ گفتگو ہوئی اور میں نے اُن سے ہر دفعہ یہی پوچھا کہ سر کچھ یاد آیا اور وہ آگے سے یہی کہیں کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا۔تین ماہ کے بعد اچانک اُن کا فون آیا’مجھے لاہور سے بلایا گیا۔میں اُن تک پہنچا تو وہ بہت ہی زیادہ downلگے۔رونے کے بعد مجھے یہ کہا کہ آج آپ کو میں ایک ایسی بات بتاناچاہ رہا ہوں جو میں نے کسی کو نہیں بتائی اور حیرانگی کیا بات یہ ہے کہ میں پچھلے پانچ سالوں سے ہر جگہ’ہر ڈاکٹر کے پاس’ہر پیر فقیر کے پاس’ہر مزار پر پتہ نہیں سینکڑوں لوگوں سے ملا ہوں لیکن جو آپ نے آخری بار مجھ سے سوال پوچھا تھا ویسا سوال کسی نے نہیں پوچھا۔میں اس بارے میں سوچتا رہا اور بالکل آپ نے سچ ہی کہا تھا۔میرے دل پہ ایک بہت ہی بڑا Guilt ہے۔جب میرے باپ کی وفات ہو رہی تھی تو میرا بھائی جو آج امریکہ میں ہے اس وقت بھی امریکہ میں تھا وہ پاس نہیں تھا۔میرے باپ نے جائیداد کے دو حصے کئے اور مجھے کہا کہ آدھا اپنے بھائی کو دے دینا۔میری نیت میں کچھ فتور آگیا اور میں نے اپنے بچوں کا سوچا۔بس یہی کہا کہ وہ تو امریکہ میں ہے اُس کو تو ضرورت نہیں میں اُس کی جائیداد میں کوئی تھوڑی سی ہیرا پھیری کر گیا۔یہ ایک ایسا Guiltہے جو میرے دل میں ہے۔اس کے علاوہ مجھے اور تو کچھ یاد نہیں آتا۔یہ بات سن کے میں نے زاروقطار رونا شروع کیا۔ میں نے کہا صاحب آپ کا جب پہلا بچہ retarded ہوا تو آپ نے اس وقت نہیں سوچا۔جب دوسرا ہواآپ نے پھر بھی نہیں سوچاآپکے ساتھ اتنا ظلم ہوتا رہا۔آپ تو خوش قسمت ہیں کہ خدا آپ کو موقع دیتا رہا۔کیا آپ realize کریں گے کہ آپ نے کیا کیا۔آپ اتنی بڑی قیمت دے چکے ہیں اُس پیسے کیلئے آپ نے یہ پیسہ اپنے بچوں کیلئے رکھنا چاہا۔وہ بچے آپ کے پاس ہیں ہی نہیں۔تو اُن صاحب نے روتے روتے یہ کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ میں کیا کروں۔میں نے کہا صاحب آپ اپنے بھائی کو بلائیے اور اُس سے معافی مانگ لیجئے۔اُنہوں نے اپنے بھائی کو بلایا۔ایک ہفتے کے بعد وہ آئے اُنہوں نے اس جائیداد کی اُن سے معافی مانگی اور ساتھ ہی مجھے یہ کہا کہ فائز صاحب آج سے تو مجھے اپنی بچی ہوئی جائیداد سے بھی نفرت ہو گئی ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے’انہوںنے وہ جائیداد بھی ایک ٹرسٹ کے نام کر دی۔خود زندگی خدمت ِ خلق کے جذبے سے گزارنی شروع کی۔اور اسی طریقے سے دن اور راتیں گزرنی شروع ہو گئیں۔کہانی کا اختتام یہ کہ آج اس بات کو ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں اور وہ صاحب آج تک زندہ ہیں۔اُن کے ڈاکٹر اس بات پہ پریشان ہیں کہ وہ زندہ کیسے ہیں۔
مائی ڈیئر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ سکون اور خوشی دے گا۔ہم اسی کے پیچھے ساری عمر بھاگتے رہتے ہیں۔جب دس مرلے کے گھر سے سکون ختم ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنے کی بجائے کہ یہ سکون کیوں ختم ہوا ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ایک کینال کے گھر سے سکون ملے گا تو ہم اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔جب ایک کنال کا گھر مل جاتا ہے تو سکون پھر نہیں ملتا۔بس ساری زندگی اسی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے لیکن سکون اور خوشی نہیں ملتے۔
مائی ڈیئر!اگر زندگی کی اصل حقیقت سکون اور خوشی ہی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں مانگتے’تو ہم اسی کیلئے محنت کیوں نہیں کرتے۔ذرا غور سے سوچئے کہ ہم سب مرنے کے بعد اپنے بارے میں ایک ہی طرح کے الفاظ سننا چاہتے ہیں۔
ہائے اللہ کتنا نیک تھا۔
کتنا خدا ترس تھا۔
ساری عمر اس نے خدمتِ خلق کی
کتنا ہی سچا انسان تھا۔
اللہ اس کی بخشش کرے
اللہ اس کی قبر کو منور کرے
اللہ تعالیٰ ایسے شخص ہمیں اور بھی بہت دے
مائی ڈیئر!ہمارے ساتھ یہی جائے گا باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔پھر مجھے اس بات پہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگوں کے اعتقاد کیوں بدل چکے ہیں۔یاد رکھیئے!ہمارے پہ جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ہماری اپنی ہی وجہ سے آتی ہیں۔کسی کیلئے نہ کریں’اپنے لئے ہی کریں۔اقبال نے کیا ہی خوب کہا تھا۔
کسی کا نہیں بنتا نہ بن
اپنا تو بن
اپنے آپ کو بدلیں’دنیا آپ کی خود ہی بدل جائے گی۔تبدیلی کا لمحہ آج’بلکہ اسی وقت ہے۔اگر آپ معاشرے کی زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ سے شروع کرنا پڑے گا۔قرآنِ پاک نے کیا ہی صاف کہا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔شاید وہ انہی اوصاف کی بات کر رہا ہو۔
مائی ڈیئر!اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ میرے پیغام میں آپ کو کچھ سچائی نظر آئی یا نہیں آئی۔یہ پیغام نیا تو نہیں ہے ہاں بہرحال ان کو دینے کا طریقہ تو ضرور فرق لگا ہوگا۔
اب بھی اپنے پُرانے سٹائل سے جینا چاہیں تو بھائی آپ کی مرضی۔یہ زندگی بھی آپ کی ہے اور آپ کو پورا اختیار ہے اسے اپنی مرضی سے چلانے کا۔میرا کام تو تھا آپ کو پیغام سنانا سو وہ میں نے کر دیا۔میری خواہش ہے کہ کبھی آپ مجھے اپنی کامیابی کی کہانی سنائیں۔
کبھی آپ نے یہ نہیں سوچاکہ اگر شام کو آپ کو کسی بات پہ صدمہ پہنچے یا آپ کا کوئی دوست آپ کو دھوکہ دے دے تو صبح آپ کے احساسات آپ کے جسم کے ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ آپ بیمار ہیں اور کالج میں ‘آفس میں فون کر کے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے جسم کو توکچھ نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ جذباتی طور پر آپ unhealthy تھے ‘آپ کا جسم بھی unhealthy ہوگیا۔
زندگی گزارنے کا یہی طریقہ ہے’آپ کو پسند ہے یا نہیںخدمت ِ خلق کے جذبے سے جئیں اور لوگوں کو دینا سیکھیں۔یاد رکھیئے اوپر والا ہاتھ جو دینے والاہے نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔مسکراہٹوں اور خوشی کے ساتھ جئیں۔معافی اور درگزر کے ساتھ کام لیں۔یہ معاشرہ اور ملک جنت بن جائے گا اگر ہم چھیننے اور لینے کی بجائے معاف کرنے اور دینے کی عادت کو اپنائیں۔اپنے لئے اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے جو آپ کریں گے وہی آئندہ نسلیں بھی کریں گی۔ایک اور سچا واقعہ سنیے:
ایک صاحب پچپن سال کی عمر میں اپنی بیماری کی وجہ سے Early Retirement لے بیٹھے۔بہت ہی بیمار تھے۔کافی عرصے سے بیمار رہے۔ہر طرح کے ڈاکٹر کو آزمالیا اور حالت یہ ہو گئی کہ Wheel Chair پر آگئے۔جسم ایک طرف سے فالج زدہ ہو گیا۔آخر بات مجھ تک پہنچی۔میں نے ان سے ملاقات کی تو میں نے اُن کے گھر میں یہ دیکھا کہ اُن کے پاس ملازم کے سوا کوئی نہیں۔تو جب میں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔پتہ یہ چلا کہ ان کے چار بچے ہیں اور چاروں retarded ہیں۔تین دفعہ شادی ہو چکی ہے۔پہلی بیوی کی deathہو گئی۔ایک ہی بھائی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں۔یہ بات مجھے سناتے جائیں اور روتے جائیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو اُنہوں نے یہ کہا کہ بس کچھ نہ پوچھیں خدا نے میرے ساتھ بہت ظلم کئے تو میں نے ان سے یہ کہا کہ خدا کسی پر ظلم تو نہیں کرتا۔آپ سوچئے کہ آپ سے کہیں کوئی ایسی کوتاہی تو نہ ہوئی اس کی وجہ سے ایسا ہواآپ کے ساتھ۔تو بہت ہی ناراض ہو گئے۔میں نے اُن سے یہی بات کہی کہ بھائی میں تو آپ کو realize کروانا چاہ رہا ہوں۔ اگر میری کسی بات پہ آپ کو تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کیجئے گا۔لیکن میرااس بات پر ایمان ہے اور یہی قرآنِ پاک میں بھی بار بار آیا ہے کہ جو بھی تم پہ ہوتا ہے کہ خدا کو مزہ نہیں آتا آپ کو تکلیف دے کے یہ آپ کی اپنی ہی وجہ سے ہوتا ہے۔خیر میں اُنہیں یہ کہہ کہ چلا آیا۔دو تین مہینے کے دوران فون پہ میری اُن سے کئی دفعہ گفتگو ہوئی اور میں نے اُن سے ہر دفعہ یہی پوچھا کہ سر کچھ یاد آیا اور وہ آگے سے یہی کہیں کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا۔تین ماہ کے بعد اچانک اُن کا فون آیا’مجھے لاہور سے بلایا گیا۔میں اُن تک پہنچا تو وہ بہت ہی زیادہ downلگے۔رونے کے بعد مجھے یہ کہا کہ آج آپ کو میں ایک ایسی بات بتاناچاہ رہا ہوں جو میں نے کسی کو نہیں بتائی اور حیرانگی کیا بات یہ ہے کہ میں پچھلے پانچ سالوں سے ہر جگہ’ہر ڈاکٹر کے پاس’ہر پیر فقیر کے پاس’ہر مزار پر پتہ نہیں سینکڑوں لوگوں سے ملا ہوں لیکن جو آپ نے آخری بار مجھ سے سوال پوچھا تھا ویسا سوال کسی نے نہیں پوچھا۔میں اس بارے میں سوچتا رہا اور بالکل آپ نے سچ ہی کہا تھا۔میرے دل پہ ایک بہت ہی بڑا Guilt ہے۔جب میرے باپ کی وفات ہو رہی تھی تو میرا بھائی جو آج امریکہ میں ہے اس وقت بھی امریکہ میں تھا وہ پاس نہیں تھا۔میرے باپ نے جائیداد کے دو حصے کئے اور مجھے کہا کہ آدھا اپنے بھائی کو دے دینا۔میری نیت میں کچھ فتور آگیا اور میں نے اپنے بچوں کا سوچا۔بس یہی کہا کہ وہ تو امریکہ میں ہے اُس کو تو ضرورت نہیں میں اُس کی جائیداد میں کوئی تھوڑی سی ہیرا پھیری کر گیا۔یہ ایک ایسا Guiltہے جو میرے دل میں ہے۔اس کے علاوہ مجھے اور تو کچھ یاد نہیں آتا۔یہ بات سن کے میں نے زاروقطار رونا شروع کیا۔ میں نے کہا صاحب آپ کا جب پہلا بچہ retarded ہوا تو آپ نے اس وقت نہیں سوچا۔جب دوسرا ہواآپ نے پھر بھی نہیں سوچاآپکے ساتھ اتنا ظلم ہوتا رہا۔آپ تو خوش قسمت ہیں کہ خدا آپ کو موقع دیتا رہا۔کیا آپ realize کریں گے کہ آپ نے کیا کیا۔آپ اتنی بڑی قیمت دے چکے ہیں اُس پیسے کیلئے آپ نے یہ پیسہ اپنے بچوں کیلئے رکھنا چاہا۔وہ بچے آپ کے پاس ہیں ہی نہیں۔تو اُن صاحب نے روتے روتے یہ کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ میں کیا کروں۔میں نے کہا صاحب آپ اپنے بھائی کو بلائیے اور اُس سے معافی مانگ لیجئے۔اُنہوں نے اپنے بھائی کو بلایا۔ایک ہفتے کے بعد وہ آئے اُنہوں نے اس جائیداد کی اُن سے معافی مانگی اور ساتھ ہی مجھے یہ کہا کہ فائز صاحب آج سے تو مجھے اپنی بچی ہوئی جائیداد سے بھی نفرت ہو گئی ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے’انہوںنے وہ جائیداد بھی ایک ٹرسٹ کے نام کر دی۔خود زندگی خدمت ِ خلق کے جذبے سے گزارنی شروع کی۔اور اسی طریقے سے دن اور راتیں گزرنی شروع ہو گئیں۔کہانی کا اختتام یہ کہ آج اس بات کو ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں اور وہ صاحب آج تک زندہ ہیں۔اُن کے ڈاکٹر اس بات پہ پریشان ہیں کہ وہ زندہ کیسے ہیں۔
مائی ڈیئر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ سکون اور خوشی دے گا۔ہم اسی کے پیچھے ساری عمر بھاگتے رہتے ہیں۔جب دس مرلے کے گھر سے سکون ختم ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنے کی بجائے کہ یہ سکون کیوں ختم ہوا ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ایک کینال کے گھر سے سکون ملے گا تو ہم اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔جب ایک کنال کا گھر مل جاتا ہے تو سکون پھر نہیں ملتا۔بس ساری زندگی اسی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے لیکن سکون اور خوشی نہیں ملتے۔
مائی ڈیئر!اگر زندگی کی اصل حقیقت سکون اور خوشی ہی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں مانگتے’تو ہم اسی کیلئے محنت کیوں نہیں کرتے۔ذرا غور سے سوچئے کہ ہم سب مرنے کے بعد اپنے بارے میں ایک ہی طرح کے الفاظ سننا چاہتے ہیں۔
ہائے اللہ کتنا نیک تھا۔
کتنا خدا ترس تھا۔
ساری عمر اس نے خدمتِ خلق کی
کتنا ہی سچا انسان تھا۔
اللہ اس کی بخشش کرے
اللہ اس کی قبر کو منور کرے
اللہ تعالیٰ ایسے شخص ہمیں اور بھی بہت دے
مائی ڈیئر!ہمارے ساتھ یہی جائے گا باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔پھر مجھے اس بات پہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگوں کے اعتقاد کیوں بدل چکے ہیں۔یاد رکھیئے!ہمارے پہ جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ہماری اپنی ہی وجہ سے آتی ہیں۔کسی کیلئے نہ کریں’اپنے لئے ہی کریں۔اقبال نے کیا ہی خوب کہا تھا۔
کسی کا نہیں بنتا نہ بن
اپنا تو بن
اپنے آپ کو بدلیں’دنیا آپ کی خود ہی بدل جائے گی۔تبدیلی کا لمحہ آج’بلکہ اسی وقت ہے۔اگر آپ معاشرے کی زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ سے شروع کرنا پڑے گا۔قرآنِ پاک نے کیا ہی صاف کہا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔شاید وہ انہی اوصاف کی بات کر رہا ہو۔
مائی ڈیئر!اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ میرے پیغام میں آپ کو کچھ سچائی نظر آئی یا نہیں آئی۔یہ پیغام نیا تو نہیں ہے ہاں بہرحال ان کو دینے کا طریقہ تو ضرور فرق لگا ہوگا۔
اب بھی اپنے پُرانے سٹائل سے جینا چاہیں تو بھائی آپ کی مرضی۔یہ زندگی بھی آپ کی ہے اور آپ کو پورا اختیار ہے اسے اپنی مرضی سے چلانے کا۔میرا کام تو تھا آپ کو پیغام سنانا سو وہ میں نے کر دیا۔میری خواہش ہے کہ کبھی آپ مجھے اپنی کامیابی کی کہانی سنائیں۔